Tafseer-e-Madani - Al-Insaan : 24
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًاۚ
فَاصْبِرْ : پس صبر کریں لِحُكْمِ : حکم کے لئے رَبِّكَ : اپنے رب کے وَلَا تُطِعْ : اور آپ کہا نہ مانیں مِنْهُمْ : ان میں سے اٰثِمًا : کسی گنہگار اَوْ كَفُوْرًا : یا ناشکرے کا
پس آپ صبر ہی سے کام لیتے رہیں اپنے رب کے حکم کے مطابق اور (کسی بھی قیمت پر) بات نہیں ماننا ان میں سے کسی بھی بدکار یا منکر حق کی2
31 صبر و استقامت کو اپنائے رکھنے کا حکم و ارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا اور پیغمبر ﷺ کو خظاب کرکے ارشاد فرمایا گیا۔ پس آپ ﷺ صبر ہی سے کام لیں اپنے رب کے حکم کیلئے۔ اور ان ناہنجاروں کا معاملہ اسی وحدہ لاشریک کے سپرد کردیں۔ وہ ان سے ٹھیک ٹھیک اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق خود نبٹ لے گا ‘ اس کا اس بارہ جب اور جو بھی حکم و فیصلہ ہوگا وہی بہتر ہوگا، سو آپ ﷺ اسی کے تابع اور اسی کے منتظر رہیں، اور اسی کیلئے صبر و برداشت سے کام لیں، سلوات اللہ وسلامہ علیہ، یہاں پر فاصبر کے بعد چونکہ ل کا صلہ آگیا ہے اس لئے یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں پر یہ انتظار کے معنی کو متضمن ہے، مطلب یہ کہ جب آپ ﷺ نے یہ کتاب مانگ کر اپنے اوپر نازل نہیں کروائی تو آپ ﷺ کو ان لوگوں کے اعتراضات اور مطالبات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، آپ ﷺ کے ذمے تو صرف بلاغ کی ذمہ داری ہے اور بس۔ پس وہ ادا کرتے رہو ‘ اور ان نابکاروں کا معاملہ ہم پر چھوڑ دو ، اور اس بارہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کرو، وہ ٹھیک وقت پر انکا پورا حساب چکا دے گا سبحانہ و تعالیٰ ۔ ان کا معاملہ ہم پر ہی چھوڑ دو ۔ ہم ان سے خود ہی نمٹ لیں گے۔ جیسا دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا : " فذرنی ومن یکذ بھذا الحدیث، سنستدرجہم من حیث لایعلمون، واملی لہم ان کیدی متین " (القلم :42 ۔ 45) ۔ سو راہ حق پر صبر و استقامت ایک اہم مطلوب اور بنیادی مطالبہ ہے۔ وباللہ التوفیق۔ 32 حق کے مقابلے میں کسی کی بھی بات نہ ماننے کی ہدایت : سو پیغمبر کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ ان میں سے کسی بھی بدکار یا منکر حق کی بات کبھی نہیں ماننی۔ پس یہ لوگ اگر آپ ﷺ کو تبلیغ دین سے ‘ یا دین کے کسی حکم سے روکنا چاہیں تو ان کی بات کبھی نہیں ماننا بلکہ جو دین آپ 4 پر آپ ﷺ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کو جوں کا توں اور بدوں کسی کم وکاست کے آگے پہنچا دیں ‘ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا : " بلغ مآ انزل الیک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس " (المائدہ :67) ۔ اور بھروسہ بہرحال اللہ ہی پر رکھیں، وہ آپ کو کافی ہے وتوکل علی اللہ روایات میں ہے کہ یہ آیت کریمہ عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے آنحضرت ﷺ کو دعوت حق سے روکنے اور تبلیغ حق سے باز رکھنے کیلئے بڑے بڑے لالچ دیئے اور بڑی بڑی پیشکشیں کیں عتبہ نے آپ ﷺ سے کہا کہ آپ ﷺ اس کام کو چھوڑ دیں تو میں آپ ﷺ کی اپنی بیٹی سے شادی کردوں گا، اور اس کو بغیر مہر کے آپ کے ساتھ روانبہ کردوں گا، اور ولید نے کہا کہ میں آپ ﷺ کو اتنا مال دوں گا کہ آپ ﷺ راضی ہوجائیں گے، تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (ابن کثیر، مراغی، صفوۃ اور مدارک وغیرہ) ۔ مگر حکم بہرحال عام ہے اور ایسے ہر کافر و مشکر کو شامل ہے جو راہ حق سے روکے۔ یہاں سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اہل باطل کے یہاں ضمیر کی خریدو فروخت کیلئے عورت اور دولت ہی کے دو ہتھیار ایسے رہے ہیں جن سے انہوں نے ہمیشہ راہ حق کو روکنے کی کوشش کی، کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف اس ارشاد سے پیغمبر کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ان میں سے کسی بھی آثم یا کفور کی بات نہیں ماننی۔ اور نہ ان میں سے کسی کی کسی بات کی پروا کرنی ہے۔ کہ اصل چیز بہرحال حق اور صرف حق ہے۔ اسی کی پیروی کرنی ہے اور اسی کی دعوت دینی ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی مایحب ویرید۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ‘ آمین۔
Top