Tafseer-e-Madani - Al-Insaan : 26
وَ مِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَهٗ وَ سَبِّحْهُ لَیْلًا طَوِیْلًا
وَمِنَ الَّيْلِ : اور رات کے (کسی حصہ میں) فَاسْجُدْ : پس آپ سجدہ کریں لَهٗ : اس کو وَسَبِّحْهُ : اور اس کی پاکیزگی بیان کریں لَيْلًا : رات کا طَوِيْلًا : بڑا حصہ
اور رات کا کچھ حصہ بھی اسی کے حضور سجدہ ریز رہا کرو اور رات کا ایک بڑا حصہ اسی کی تسبیح (و تقدیس) میں لگے رہا کرو
34 رات کی سجدہ ریزی حکم و ارشاد : سو اس سے رات کے اوقات میں بھی اپنے رب کے حضور سجدہ ریزی کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور رات میں اس کے حضور سجدہ ریز رہا کرو کہ اس کی یاد دلشاد اس کی عبادت و بنڈگی اور اس کے حضور سجدہ ریزی ہی مومن کیلئے وہ عظیم الشان شرف اور سعادت ہے ‘ جس کے ذریعے بندئہ مومن مشاکل و مصائب پر قابو پاتا اور غلبہ حاصل کرتا ہے، اور اپنے خالق ومالک کی تائید و نصرت کے شرف سے مشرف ہوتا ہے اسی لئے نبیٔ اکرم ﷺ کا طریقہ تھا کہ جب کوئی معاملہ پیش آتا اور کوئی مشکل نمودار ہوتی ‘ تو آپ ﷺ نماز کی طرف رجوع فرماتے (اذا حزبہ امر فزع الی الصلوۃ) مگر افسوس کہ آج مسلمان اس سے غافل و بیخبر ہے الا ماشاء اللہ حالانکہ مشکلات سے نکلنے اور بچنے کے لئے سب سے اہم اصل اور حقیقی ذریعہ و وسیلہ یہی ہے کہ بندہ نماز کے ذریعے اپنے خالق ومالک سے مدد مانگے اللھم کن لنا واجعلنا لک بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ بہر کیف صبح و شام اپنے رب کی یاد سے سرشار رہنا حصول صبر کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی یاد دلشاد کا ذکر وبیان جب مختلف اوقات کی تحدید و تعین کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ یہاں پر اس آیت کریمہ میں ہے، تو اس سے اشارہ دراصل پنجگانہ نمازوں کی طرف ہوتا ہے، جن کی تفصیل پیغمبر نے اپنے قول و فعل سے فرمائی ہے۔ جس کے مطباق ہر مومن اپنی پنج وقتہ نماز ادا کرتا ہے۔ سو اس سے یہ امر بھی واضح ہوجاتا ہے کہ حدیث رسول کے بغیر قرآن حکیم سمجھنا ممکن نہیں۔ سو حدیث رسول قرآن حکیم کا بیان، اس کی تفصیل و تشریح اور اس کی تفسیر ہے اور اس کی حیثیت دین حنیف میں وہی ہے جو انسانی جسم کے اندر ریڑھ کی ہڈی کی ہے۔ پس حدیث کا انکار دراصل قرآن حکیم اور پورے دین کا انکار ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم اللہ تعالیٰ ہر قسم کے زیغ و ضلال سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین 35 تسبیح شب کا حکم و ارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا اور رات کے ایک طویل حصے میں بھی اس کی تسبیح کرو۔ جس کی بہترین شکل تہجد ہے، اکثر علماء کرام نے اس ارشاد سے اسی طرح پانچوں نمازوں اور تہجد کی طرف اشارے مراد لئے ہیں جیسا کہ ہم نے ابھی اوپر عرض کیا، (تفسیر کبیر اور جامع البیان وغیرہ) اور یہی مروی ہے عکرمہ وغیرہ سے، (ابن کثیر، مراغی وغیرہ) صبح و شام کا ذکر احاطہ وقت کے لئے بھی ہوتا ہے اور لفظ ذکر یہاں عام ہے جو نماز اور ذکر دونوں کو شامل ہے۔ سو قرآن حکیم کا عام طریقہ اور ضابطہ یہی ہے کہ جہاں بھی منکرین و مخالفین کے مقابلے میں صبر و ثبات کی تلقین فرمائی گئی ہے ہواں پر اس کے فوری بعد نماز کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے جس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ دشمنان حق کی مزاحمتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جس طاقت و قوت کی ضرورت ہوتی ہے وہ نماز ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویریدو علی مایحب ویریدو ہوالہادی الی سواء السبیل۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین
Top