Tafseer-e-Madani - An-Naba : 14
وَّ اَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَآءً ثَجَّاجًاۙ
وَّاَنْزَلْنَا : اور نازل کیا ہم نے مِنَ الْمُعْصِرٰتِ : بادلوں سے مَآءً : پانی ثَجَّاجًا : بکثرت
اور ہم ہی نے اتارا بھرے بادلوں سے (تمہاری طرح طرح ضرورتوں کے مطابق) بکثرت پانی
(12) پانی کے جوہر حیات آفریں میں غور و فکر کی دعوت : سو پانی کے اس عظیم الشان جوہر حیات آفرین اور اس سے نوازنے کے پر حکمت نظام میں دعوت غور و فکر کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ ہم ہی نے پانی سے لبریز بدلیوں سے بکثرت پانی اتارا۔ اور اتنی کثرت اور اس قدر بہتات و فراوانی کے ساتھ اتارا کہ تمہاری، تمہارے جانوروں کی، اور دوسری بیشمار مخلوق کی بےحدو حساب ضرورتیں اس سے پوری ہور رہی ہیں، اور اس قدر پر حکمت طریقے سے اتارا کہ سوچنے اور غور کرنے پر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے، سبحانہ و تعالیٰ فللہ الحمد۔ سو پانی سے لبریز بادلوں سے اس کثرت اور فراوانی کے ساتھ پانی کے اتارے جانے میں جہاں اس خالق ومالک کی شان ربوبیت و رحمت، بندوں کی سزا و جزا اور تقاضائے مسولیت کے دلائل سامنے آتے ہیں، وہیں زمین و آسمان کے توافق کے اعتبار سے یہ اس کی وحدانیت کی ایک واضح دلیل بھی ہے۔ سبحانہ وتعالی۔ اور پھر اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جس قادر مطلق خدائے واحد نے اپنے بندوں کی جسمانی اور مادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اس قدر عظیم الشان اور پر حکمت نظام قائم فرمایا ہے، کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ اس کی باطنی اور روحانی ضرورتوں کی تکمیل کا سامان نہ کرے، جبکہ جسم و روح میں اصل چیز روح ہی ہے۔ سو اسی لیے اس نے انبیاء و رسل کو مبعوث فرمایا اور ان پر اپنی کتابیں اتاریں اور اسی مقصد کے لئے اس نے سب کے آخر میں خاتم الکتب کے طور پر قرآن حکیم کو نازل فرمایا، جس کی ہدایت و رہنمائی قیامت تک سب زبانوں اور جملہ انسانوں کے لئے ہے۔ نیز مادی نعمتوں کی اس عنایت و عطا کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ایک ایسا یوم حساب آئے جس میں ان سب نعمتوں کے بارے میں انسان سے پوچھ اور حساب کتاب ہو۔ سو وہی دن قیامت کا دن ہے جو اس دنیاوی زندگی کے بعد اور اس کے خاتمے پر آئے گا۔ سو اس طرح ان نعمتوں اور ان مظاہر قدرت کے ذکر سے توحید، رسالت، اور آخرت سب ہی کے لیے دلائل کو بیان فرما دیا گیا۔ فالحمد للہ جل وعلا، بکل حال من الاحوال۔
Top