Tafseer-e-Madani - An-Naba : 37
رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ لَا یَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًاۚ
رَّبِّ السَّمٰوٰتِ : جو رب ہے آسمانوں کا وَالْاَرْضِ : اور زمین کا وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ : اور جو ان دونوں کے درمیان ہے رحمن لَا يَمْلِكُوْنَ : نہ مالک ہوں گے مِنْهُ خِطَابًا : اس سے بات کرنے کے
جو کہ مالک ہے آسمانوں اور زمین اور اس ساری کائنات کا جو کہ آسمان و زمین کے درمیان میں ہے اس (خدائے) رحمان کی طرف سے جس کے سامنے کسی کو یارا نہ ہوگا بات کرنے کا
(31) خدائے رحمان کی رحمت بیکراں کا حوالہ و ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اہل جنت کے لیے یہ سب صلہ و بدلہ اور انعام و احسان اس خدائے رحمان کی طرف سے ہوگا، جو کہ مالک ہے آسمانوں اور زمین اور ساری کائنات کا جو کہ ان دونوں کے درمیان ہے، کہ اس سب کا خالق بھی تنہا وہی ہے، اور مالک بھی بلا شرکت غیرے وہی ہے، اور اس میں حاکم و متصرف بھی وہی ہے، سبحانہ و تعالی۔ پس نہ تو اس میں مشرکین کی دیویوں اور دیوتاؤں کی کوئی جگہ ہے، اور نہ ہی کلمہ گو مشرکوں کی مختلف خود ساختہ ہستیوں اور سرکاروں کی کوئی گنجائش، وہ ہر قسم کے شرک اور اس کے ہر شائبہ سے پاک اور اعلی وبالا ہے، سبحانہ و تعالی۔ سو اہل ایمان کو اس عظیم الشان جزا اور ان مراتب و درجات سے وہی وحدہ لاشریک نوازے گا۔ سو جو " رب السموات والارض " ہے، یعنی جو رب اور مالک ہے آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات کا۔ اور اس ارشاد میں اسمائے حسنی میں سے صفت رحمن کے ذکر سے ایک طرف تو یہ واضح فرما دیا گیا کہ یہ سب کچھ اسی خدائے رحمان کی رحمت بےپایاں کا مظہر و نمونہ ہوگا، جس کی رحمتوں کا کوئی کنارہ نہیں، سبحانہ و تعالی۔ اور دوسری طرف اس میں مشرکین پر تعریض ہے جو صفت رحمن سے چڑا کرتے تھے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم خدائے رحمان کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤ تو وہ کہتے ہیں " وما الرحمن " رحمان کیا ہوتا ہے ؟ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس میں ان مشرکین پر تعریض ہے کہ تم کس قدر اوندھے اور اندھے ہو کہ تم اسی خدائے رحمن سے چڑھ رکھتے ہو، جس کی رحمتوں میں تم لوگ اس دنیا میں بھی ڈوبے ہوئے ہو، اور جس کی بےپایاں رحمتوں سے تم آخرت کے اس ابدی جہاں میں بھی سرفراز ہوؤ گے جس میں اس کی رحمت بےپایاں اور عنایت بےعنایت کے عظیم الشان اور بےمثال مظاہر پائے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں، ہر اعتبار سے اور محض اپنے فضل و کرم سے اپنی خاص رحمتوں کے سائے میں رکھے۔ آمین ثم آمین، یا رب العالمین۔ (32) مشرکین کے مزاعم باطلہ کی نفی و بیخ کنی کا ذکر وبیان : سو مشرکین کے خود ساختہ ڈھکوسلوں اور مزاعم باطلہ کی نفی و بیخ کنی کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ اس کے سامنے کوئی بات بھی نہیں کرسکے گا۔ بغیر اس کے اذن و اجازت کے، چہ جائیکہ کوئی زبردستی کر کے، یا اڑ کر اس کے یہاں سے اپنی کوئی بات منوالے، جیسا کہ کھلے مشرکین کا بھی کہنا تھا اور کہنا ہے، اور ان کلمہ گو مشرکین کا بھی کہنا ہے، جو کہ ایمان و عمل کی اہمیت سے غافل اور اپنے فرائض و ذمہ داریوں سے لاپرواہ ہو کر اس طرح کی خود ساختہ مختلف ہستیوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں، کہ ہم ان کے حضور نذر و نیاز پیش کردیں گے اور بس وہ ہمارا سارا کام خود کریں گے، ہماری ان کے آگے اور ان کی ان کے آگے، وغیرہ وغیرہ۔ سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اس خالق ومالک کی شان اقدس و اعلی اس طرح کے تمام تصورات سے کہیں ارفع و اعلی اور اس سے کہیں بلند وبالا ہے، سبحانہ و تعالی۔ وہاں تو اس کے حضور کوئی زبان بھی نہیں کھول سکے گا جب تک کہ اس کی طرف سے اس کے لیے اذن نہ ہو۔ چہ جائیکہ اڑ کے بیٹھ جائے اور منوا کے چھوڑے، وغیرہ۔ سو اس طرح کے تمام تصورات جو مشرک لوگوں نے از خود اپنے ذہنی مفروضوں اور خود ساختہ فلسفوں کی بناء پر اس وحدہ لاشریک کے بارے میں قائم کر رکھے ہیں ان سب کی نفی ہوگئی اور یہ امر ثابت اور واضح ہوگیا کہ وہ سب غلط اور بالکل بےحقیقت ہیں، بہرکیف اس ارشاد سے مشرکین کے ایسے تمام مزاعم باطلہ اور ان کے من گھڑت اور خود ساختہ مفروضوں اور ڈھکوسلوں کی بیخ کنی فرما دی گئی۔ فالحمدللہ جل وعلا۔ اللہ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین۔ نیز اس سے فرشتوں کی بےبسی کا ذکر وبیان فرما دیا گیا، چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ جس دن کھڑے ہوں گے روح اور دوسرے فرشتے صف بستہ، یعنی وہ سب عاجزانہ اپنے رب کی بارگاہ اقدس میں کھڑے ہوں گے، جمہور مفسرین کرام کے نزدیک یہاں پر روح سے مراد جبریل امین ہیں، جن کی عظمت اور اہمیت کی بناء پر ان کا عام ملائکہ سے الگ اور بطور خاص ذکر فرمایا گیا ہے، اور روح کا اطلاق عام طور پر جبریل امین ہی پر ہوتا ہے کہ انہی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف پیغام وحی اس کے بندوں کے لیے بھیجا جاتا ہے جو کہ روحوں کی غذا ہے (روح، مراغی، مدارک، خازن اور کبیر وغیرہ) لیکن اس میں کچھ اوراقوال بھی ہیں (ابن کثیر وغیرہ) سو اس روز جبریل امین دوسرے تمام فرشتے اللہ تعالیٰ کے حضور اس طرح صف بستہ حاضر ہوں گے جس طرح نہایت مودب خدام اپنے آقا کے سامنے مودبانہ کھڑے ہوتے ہیں، اور یہی تقاضا ہے ان کی شان عبدیت اور حضرت حق جل مجدہ کی عظمت شان، سبحانہ و تعالی۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر اس کے حضور زبان بھی نہیں کھول سکیں گے، چہ جائیکہ وہ آگے بڑھ کر از خود کسی کے لئے کوئی سفارش کرسکیں۔ لہذا مشرکین نے ان کے بارے میں جو امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں وہ سب بےبنیاد ہیں۔ پس مشرکین نے جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دے کر ان کی شفاعت و سفارش پر اعتماد کر رکھا ہے، وہ سب بےبنیاد اور باطل و مردود ہے اور ایسے خود ساختہ اور من گھڑت مفروضوں کی کوئی اصل نہ ہے نہ ہوسکتی ہے کہ یہ سب کچھ بےبنیاد اور اوہام و خرافات کا پلندہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ ہر حال میں اور ہر اعتبار سے راہ حق و صواب پر مستقیم و گامزن رکھے۔ آمین ثم آمین، یا رب العالمین، ویا ارحم الراحمین، واکرم الاکرمین۔
Top