Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 21
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ هُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح جو قَالُوْا : انہوں نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَهُمْ : حالانکہ وہ لَا يَسْمَعُوْنَ : وہ نہیں سنتے
اور کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا مگر وہ سنتے نہیں،
33 اہل ایمان کو ایک خاص اور اہم تنبیہ : سو ان کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہیں ہوجاتا جو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا مگر وہ سنتے نہیں۔ سو تم ان لوگوں کی طرح نہیں ہوجانا جو محض ظاہری کانوں سے سنتے ہیں مگر ان کا عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔ سو محض سر کے کانوں سے سننے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک کہ دل کے کانوں سے نہ سنا جائے۔ سو یہ حال ہے ان منافقوں کا جو اوپر اوپر سے تو مانتے ہیں مگر دل سے نہیں مانتے۔ حالانکہ اصل مطلوب وہی ہے۔ یعنی دل و جان سے ماننا۔ ان محض زبانی کلامی دعو وں کا کوئی اعتبار نہیں۔ پس تم اے سچے ایماندار و، ایسے منافق اور محروم لوگوں کی طرح نہ ہوجانا کہ یہ راہ محرومی کی راہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور ایسے لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ کھلے اور ہٹ دھرم کافر جو کہنے کو تو کہتے ہیں کہ ہم نے سنا لیکن کہتے ہیں کہ ہم نہیں مانتے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ان کے لئے فرمایا گیا { وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا } الآیۃ (النسائ : 46) اور دوسرے وہ منافق جن کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا { وَمِنْہُمْ مَنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ حَتّٰی اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوا لِلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا } ۔ (محمد : 16) ۔ سو یہ دونوں قسم کے لوگ سنتے ہیں مگر ان کا سننا نہ سننے کے برابر ہے۔ ( المنار، المراغی وغیرہ) ۔ اور زمخشری کہتے ہیں کہ جب تم لوگ قرآن اور پیغمبر پر ایمان لانے کے باوجود بعض معاملات میں پیغمبر کی اطاعت سے منہ موڑتے ہو تو تمہاری تصدیق نہ ہونے کے برابر ہوگی اور تمہارا سننا نہ سننے کے برابر۔ کیونکہ ایمان و تصدیق کا تقاضا سمع وطاعت اور فرمانبرداری پر ہوتا ہے۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ پس جو لوگ سمع وطاعت اور فرمانبرداری کے تقاضے پورے نہیں کرتے ان کا ایمان محض زبانی کلامی ہے ۔ والعیاذ باللہ -
Top