Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تَتَّقُوا : تم ڈروگے اللّٰهَ : اللہ يَجْعَلْ : وہ بنادے گا لَّكُمْ : تمہارے لیے فُرْقَانًا : فرقان وَّيُكَفِّرْ : اور دور کردے گا عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہاری برائیاں وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور بخشدے گا تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُو الْفَضْلِ : فضل والا الْعَظِيْمِ : بڑا
اے ایمان والو ! اگر تم ڈرتے رہے اللہ سے تو وہ سرفراز فرما دے گا تم کو ایک فیصلہ کن چیز سے، اور وہ مٹا دے گا تم سے تمہاری برائیوں کو اور نواز دے گا تم کو اپنی بخشش سے، اور اللہ بڑا ہی فضل والا ہے،
49 تقویٰ و پرہیزگاری وسیلہ سعادت و سرفرازی : سو ایمان والوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ اگر تم لوگ ڈرتے رہے اللہ سے اور بچتے رہے اس کی ناراضی اور پکڑ سے تو وہ تمہیں ایک عظیم الشان قوت فرق وتمیز سے نوازے گا۔ سو تقویٰ و پرہیزگاری دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ سو تقویٰ تم کو اللہ تعالیٰ فرقان سے نوازے گا۔ یعنی ہدایت اور باطن کے اس نور سے جس کے ذریعے حق و باطل کو پہچاننا اور صحیح و غلط کے درمیان فرق وتمیز کرنا تم کو آسان ہوجائے گا۔ (معارف، صفوۃ وغیرہ) ۔ سو تقویٰ و پرہیزگاری دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ ہے۔ پس تم لوگ ہمیشہ اسی کی فکر و کوشش میں رہا کرو اور اپنی حد تک اس کے لئے کوشش کیا کرو کہ تقویٰ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ 50 اللہ تعالیٰ کے فضل عظیم کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا اور اللہ بڑا ہی فضل والا ہے۔ سو اللہ ایسے متقی اور پرہیزگار لوگوں کو اس سعادت و عنایت سے نوازتا ہے کہ اس کی شان ہی نوازنا ہے۔ چناچہ وہ تھوڑے عمل پر بےحد و حساب اجر وثواب سے نوازتا ہے۔ اور یہ بھی اس کے بےپایاں کرم اور عظیم الشان فضل و احسان ہی کا ایک مظہر ہے کہ وہ اپنے مومن اور متقی بندے کو تقویٰ کی برکت سے اتنے اتنے اور ایسے ایسے انعامات سے نوازتا ہے۔ ورنہ اس کے عبد اور بندے ہونے کا تقاضا یہ تھا اور یہ ہے کہ انسان ہمیشہ اور ہر حال میں اس کی عبادت و بندگی میں لگا رہے۔ اس کے اوامر کو دل و جان سے بجا لائے اور اس کی نواہی اور ممنوعات سے بچتا رہے۔ مگر یہ اس کا کرم و احسان ہے کہ وہ اپنے بندے کو آداب بندگی بجا لانے پر طرح طرح کے انعامات و احسانات سے نوازتا اور سرفراز فرماتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو ہمیشہ اسکے فضل و کرم سے سرفرازی کو اپنا مقصد حیات اور نصب العین بنائے رکھنا چاہیئے ۔ وباللہ التوفیق ۔ سو جب بندہ اپنے بس کی حد تک اس کے حقوق بندگی اداء کرنے میں لگا رہتا ہے تو بشری تقاضوں کی بناء پر اس سے جو کمزوریاں اور کو تاہیاں سرزد ہوجائیں گی وہ ان کو معاف فرما دے گا کہ وہ بڑا ہی فضل والا ہے۔ اور وہ بڑا ہی غفور و رحیم بھی ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top