Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 33
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُعَذِّبَهُمْ : کہ انہیں عذاب دے وَاَنْتَ : جبکہ آپ فِيْهِمْ : ان میں وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے اللّٰهُ : اللہ مُعَذِّبَهُمْ : انہیں عذاب دینے والا وَهُمْ : جبکہ وہ يَسْتَغْفِرُوْنَ : بخشش مانگتے ہوں
مگر اللہ ایسا نہیں کہ ان کو عذاب دے، درآنحالیکہ آپ ان کے درمیان موجود ہوں، اور نہ ہی اللہ ان کو اس حال میں عذاب دینے والا ہے جب کہ استغفار کر رہے ہوں،3
56 پیغمبر کا وجود باعث رحمت اور ذریعہ امن وامان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ایسا نہیں کہ ان لوگوں کو عذاب دے جبکہ آپ اے پیغمبر بذات خود ان کے اندر موجود ہوں۔ آپ ﷺ کا وجود باجود اہل زمین کے لئے امن وامان کا ذریعہ اور باعث خیر و برکت ہے۔ اور اللہ پاک کا قانون اور دستور یہی ہے کہ جب پیغمبر اپنی امت کے اندر موجود ہوں تو ان پر عذاب نازل نہیں ہوتا۔ (معارف، صفوۃ اور تفسیر کبیر وغیرہ) ۔ سو اس ارشاد سے ان بدبختوں کے اس سوال کا جواب دے دیا گیا اور ان کی اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا گیا کہ اگر ہم باطل پر ہیں تو ہم پر عذاب آتا کیوں نہیں ؟ سو ان کو یہ جواب دیا گیا کہ " اللہ ایسا نہیں کہ ان کو عذاب دے جبکہ آپ ﷺ (اے پیغمبر ! ) ان کے اندر موجود ہوں "۔ اور یہ جواب در اصل اس سنت الٰہی پر مبنی ہے جو اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کی قوم پر عذاب اتارنے کے سلسلہ میں مقرر فرما رکھی ہے۔ اور وہ سنت خداوندی یہ ہے کہ جب تک اللہ کا نبی کسی قوم کے اندر موجود ہوتا ہے اس پر عذاب نہیں آتا۔ کیونکہ وہ پیغمبر اس قوم کے اندر بمنزلہ دل کے ہوتا ہے۔ وہ اپنی قوم کے لئے استغفار کرتا اور ان کے لئے بخشش کی دعا مانگتا ہے۔ اور قوم کے اندر اس کا وجود اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ ابھی اس قوم کے اندر رمق حیات باقی ہے۔ اور اس کی دعوت سے ان لوگوں کو زندگی ملتی ہے جن کے اندر حیات ایمانی قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اس لیے جب تک پیغمبر کا وجود رحمت ان کے درمیان موجود ہوتا ہے وہ لوگ عذاب سے محفوظ رہتے ہیں۔ 57 عذاب سے بچنے کا دوسرا بڑا ذریعہ، استغفار : سو ارشاد فرمایا گیا کہ نہ ہی اللہ ان لوگوں کو اس صورت میں عذاب دینے والا ہے جبکہ یہ استغفار کرتے ہوں کہ استغفار عذاب کو ٹالنے کا ذریعہ ہے۔ اور سنن ترمذی میں آنحضرت ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لئے عذاب سے بچنے کے دو امان بنائے ہیں۔ ایک میرا وجود اور دوسرا استغفار۔ میرے انتقال کے بعد پہلا امان تو ختم ہوجائے گا مگر دوسرا یعنی استغفار قیامت تک باقی رہے گا۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، ابن کثیر، صفوہ، جامع، محاسن وغیرہ) ۔ سو پیغبر کی زندگی میں ان کا قوم کے لئے استغفار اللہ کے عذاب کے لئے سپر اور ڈھال بن جاتا ہے۔ پیغمبر کی زندگی میں قوم کے اشرار خواہ کتنی ہی شرارتیں کریں اور خدا و رسول کو کتنے ہی چیلنج کریں اللہ ان سے در گزر فرماتا ہے جبکہ پیغمبر کی زندگی کے بعد ان کے لئے ان کی دوسری ڈھال اور بچاؤ کا سامان توبہ و استغفار ہے جو کہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کے مطابق قیامت تک باقی رہی گی ۔ فللّٰہِ الحَمْدُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ-
Top