Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 35
وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِیَةً١ؕ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھی صَلَاتُهُمْ : ان کی نماز عِنْدَ : نزدیک الْبَيْتِ : خانہ کعبہ اِلَّا : مگر مُكَآءً : سیٹیاں وَّتَصْدِيَةً : اور تالیاں فَذُوْقُوا : پس چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا : اس کے بدلے جو كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے تھے
اور خود ان کی نماز بیت اللہ کے پاس سیٹیاں بجانے، اور تالیاں پیٹنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتی، سو اب چکھو تم لوگ عذاب اپنے اس کفر کے بدلے میں جو تم کرتے رہے تھے،1
60 مشرکین مکہ کی نماز، خرافات کا پلندہ ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر وقصر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان کی نماز بیت اللہ کے پاس سیٹیاں بجانے اور تالیاں پیٹنے کے سوا کچھ نہیں۔ سو بیت اللہ کی تولیت کا دعویٰ کرنے والے مشرکین کی نماز بیت اللہ کے پاس محض تالیاں پیٹنا اور سیٹیاں بجانا ہے اور بس۔ جو انتہا درجے کی گمراہی بھی ہے اور پرلے درجے کی حماقت بھی۔ بھلا سیٹیوں اور تالیوں کا عبادت جیسے مقدس عمل سے کیا لگاؤ ہوسکتا ہے ؟ افسوس کہ آج کا جاہل مسلمان بھی کچھ اسی طرح کی خرافات میں مبتلا ہے۔ وہ بھی اپنے عرسوں وغیرہ میں اسی طرح کے مختلف کھیل تماشوں کو اپنا مشغلہ اور دین و ایمان کا تقاضا بنائے ہوئے ہے۔ بلکہ وہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ڈھول ڈھمکے سے کام لیتا، گھنگھرو چھنکاتا، گھڑے بجاتا اور دوسری کئی خرافات سے کام لیتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ یہ قوالی شریف ہو رہی ہے اور " شریف " اور " مبارک " جیسے مقدس اور پاکیزہ لفظوں کے سابقے اور لاحقے جوڑ کر وہ ان خرافات پر پردہ ڈالنے کی سعی مذموم کرتا ہے۔ اور وہ یہ نہیں جانتا کہ ازخود کسی کو مبارک یا شریف کہنے سے کوئی کام جائز نہیں بن جاتا۔ بلکہ اسکے جواز کیلئے کتاب اللہ اور سنت رسول سے دلیل کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے۔ سو اس ارشاد سے اس امر کی تاکید فرما دی گئی کہ یہ لوگ بیت اللہ کی تولیت کے اہل نہیں۔ اور ان کی یہ نماز نماز نہیں خرافات کا پلندہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ جبکہ مسجد حرام کی متولی وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو کہ متقی و پرہیزگار ہوں۔ 61 کفر و شرک کا نتیجہ ہولناک عذاب ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ الْعَظِیْمِ : سو یہاں پر ان کفار و مشرکین کی ان خرافات کو ذکر کرنے کے متصل بعد حرف فاء کی تعقیب کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ لو اب چکھو تم لوگ عذاب اپنے کفر کے بدلے میں۔ دنیا میں بھی جیسا کہ بدر وغیرہ کے مواقع پر ہوا، اور آخرت میں بھی۔ جو کہ پورا، دائمی اور بڑا ہی سخت عذاب ہوگا ۔ { وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ } ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کیونکہ کافر کو اس دنیا میں جو بھی اور جتنا بھی عذاب ملے اس سے اسکے آخرت کے عذاب میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اور اس کے لیے اصل عذاب آخرت ہی کا عذاب ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس ارشاد سے مشرکین مکہ کی ان تمام غلط فہمیوں کی جڑ نکال دی جو وہ اپنے دماغوں میں رکھتے تھے کہ ہم حضرت ابراہیم کے وارث ان کے بنائے ہوئے گھر کے متولی و مجاور اور حضرت ابراہیم و اسماعیل کی اولاد اور ان کی نسل ہیں۔ ہمیں کوئی پرواہ نہیں وغیرہ۔ سو ان کو بتادیا گیا کہ ان میں سے کوئی بھی چیز تمہیں کام نہیں آسکے گی بلکہ تمہیں اپنے کفر و شرک کے باعث اللہ کا عذاب بہرحال بھگتنا ہوگا۔ بس اب تم چکھو اس عذاب کو ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ کفر و شرک کا لازمی نتیجہ ہولناک عذاب ہے جو ایسے لوگوں کو بہرحال بھگتنا ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top