Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 38
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّنْتَهُوْا یُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ١ۚ وَ اِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ
قُلْ : کہ دیں لِّلَّذِيْنَ : ان سے جو كَفَرُوْٓا : انہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ : اگر يَّنْتَهُوْا : وہ باز آجائیں يُغْفَرْ : معاف کردیا جائے لَهُمْ : انہیں جو مَّا : جو قَدْ سَلَفَ : گزر چکا وَاِنْ : اور اگر يَّعُوْدُوْا : پھر وہی کریں فَقَدْ : تو تحقیق مَضَتْ : گزر چکی ہے سُنَّةُ : سنت (روش) الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ
کہہ دو کافروں سے، کہ اگر یہ باز آگئے تو معاف کردیا جائے گا، ان کے لئے وہ کچھ جو کہ ہوچکا اس سے پہلے اور اگر ان کے لچھن پھر بھی وہی رہے جو پہلے تھے تو ہمارا قانون بھی وہی ہے جو گزر چکا اگلوں کے حق میں،
67 منکرین کے لیے عذاب سے رہائی کی صورت : سو ان کی رہائی کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ لوگ اپنے کفر و شرک سے باز آجائیں۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ باز آگئے اپنے کفر و شرک سے تو ان کے گزشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ سو کفر و شرک سے باز آنے کا فائدہ خود اہل کفر و باطل ہی کو ہوگا۔ تو اس طرح کفر و باطل سے باز آنے میں خود انہی لوگوں کا بھلا اور فائدہ ہے کہ اس طرح یہ لوگ دائمی خسارے اور ابدی نقصان سے بچ جائیں گے اور حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی رحمت و عنایت کی پناہ میں آجائیں گے۔ اور دنیا و آخرت کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز ہوں گے۔ ورنہ یہ خود اپنا ہی نقصان کریں گے اور ہولناک خسارے میں مبتلا ہوں گے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس ارشاد میں دراصل کفار و مشرکین کے لئے توبہ و استغفار کی دعوت ہے کہ اگر یہ لوگ اس عذاب سے بچنا چاہتے ہیں، جس کی انہیں خبر دی جا رہی ہے تو یہ اپنی اصلاح کرلیں اور کفر و باطل کی اپنی اس روش کو ترک کردیں جس کو یہ لوگ اپنائے ہوئے ہیں۔ اور صدق دل سے راہ حق و ہدایت کی طرف رجوع کرلیں ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقِ ۔ کہ رب رحمان کی رحمت و عنایت کا دروازہ سب کے لیے اور ہمیشہ کے لیے کھلا ہے ۔ سبحانہ وتعالی - 68 اللہ کا قانون بےلاگ اور سب کے لیے یکساں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ باز نہ آئے تو پھر ہمارا قانون بھی وہی ہے جو گزر چکا ہے اگلوں میں کہ جنہوں نے بھی حق کو جھٹلایا اور ہمارے نبیوں کی تکذیب کی اور وہ اپنے کفر و باطل پر اڑے ہی رہے تو ان کی مقررہ مہلت و مدت کے ختم ہونے کے بعد ان کو دھر لیا گیا۔ اور یہاں تک کہ ان کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا گیا۔ جیسے قوم عاد وثمود وغیرہ۔ سو ہمارا جو قانون مکافات ان پر لاگو ہوا، وہ ان پر بھی لاگو ہوسکتا ہے کہ ہمارا قانون انصاف یکساں اور سب کے لئے ایک برابر ہے۔ اس لیے اگر یہ لوگ باز نہیں آتے اپنے کفر و تکذیب سے تو ان کو بھی اپنے اس ہولناک انجام کیلئے تیار رہنا چاہیئے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس میں ان لوگوں کے لئے ترغیب کے بعد ترہیب ہے کہ اگر یہ اپنی شرارتوں اور شر انگیزیوں سے باز نہ آئے اور انہوں نے اپنی روش کو نہ بدلا، تو یہ بھی اسی سنت الٰہی اور دستور خداوندی کی گرفت میں آ کر رہیں گے جس کی گرفت میں حضرات انبیاء و رسل کی تکذیب کرنے والی گزشتہ قومیں آچکی ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کہ اللہ تعالیٰ کا قانون و دستور سب کے لیے یکساں اور بےلاگ ہے ۔ سبحانہ وتعالی -
Top