Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 47
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجانا كَالَّذِيْنَ : ان کی طرح جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں بَطَرًا : اتراتے وَّرِئَآءَ : اور دکھاوا النَّاسِ : لوگ وَيَصُدُّوْنَ : اور روکتے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : سے۔ جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطٌ : احاطہ کیے ہوئے
اور کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا، جو نکلے اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھلانے کے لئے درآں حالیکہ وہ روکتے ہیں اللہ کی راہ سے، اور اللہ پوری طرح احاطہ کئے ہوئے ہے ان تمام کاموں کا جو یہ لوگ کر رہے ہیں،
98 کفار کی روش سے بچنے کے لئے تنبیہ و تذکیر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم ان لوگوں کی طرح نہیں ہوجانا جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور دکھلاوا کرتے ہوئے نکلے تھے جیسا کہ کفار قریش اور مشرکین مکہ نکلے تھے، جو کہ اپنے فخر و غرور کے نشے میں چور اور بدمست و مخمور تھے۔ روایات میں ہے کہ جب کفار قریش کا قافلہ سلامتی کے ساتھ نکل گیا اور وہ لوگ مسلمانوں کی زد سے بچ گئے تو امیر قافلہ ابو سفیان بن حرب نے لشکرکفار کی طرف پیغام بھیجا کہ چونکہ ہم سلامتی کے ساتھ نکل آئے ہیں، اس لیے اب لڑنے بھڑنے اور جنگ وجدال کی کوئی ضرورت نہیں۔ لہذا آپ سب لوگ اب واپس چلے جائیں۔ تو اس کے جواب میں ابو جہل اینڈ کمپنی نے نہایت تکبر کے ساتھ کہا کہ نہیں اب تو ہم بدر میں ضرور جائیں گے۔ اور وہاں جا کر اپنی فتح کا جشن منائیں گے تاکہ ہماری بہادری کے گیت گائے جائیں اور پورے جزیرہ نمائے عرب میں ہماری دھاک بیٹھ جائے۔ تاکہ آئندہ کوئی ہماری طرف آنکھ اٹھانے کی بھی جرأت نہ کرسکے۔ پھر اس تکبر کا جو انجام ہوا وہ دنیا نے دیکھا کہ ان لوگوں کو شراب کی بجائے موت کے پیالے پینے پڑے۔ اور رقاصاؤں کے رقص و سرود کی بجائے ان پر نوحہ کرنے والیوں نے نوحے کئے۔ اور عربوں پر دھاک بٹھانے کی بجائے ان کی کمر ٹوٹ گئی۔ ان کا غرور خاک میں مل گیا۔ یہ خود مٹ گئے اور ہمیشہ کے لئے نمونہ عبرت بن گئے۔ سو کبر و غرور کا انجام بڑا ہی برا اور عبرتناک ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ نفس و شیطان کے ہر شر سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور ہمیشہ اپنی حفاظت وپناہ کے سائے میں رکھے ۔ آمین۔ 99 کفار کے دوہرے جرم کے ارتکاب کا ذکر وبیان : سو اس سے ان کفار کے دوہرے جرم کے ارتکاب کا ذکر وبیان فرمایا گیا ہے کہ ایک طرف تو یہ بدبخت پیغام حق و ہدایت سے منہ موڑ کر خود کفر و شرک کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور دوسری طرف یہ دوسروں کو بھی راہ حق و ہدایت سے روکتے ہیں۔ اور اس طرح ایسے بدبخت لوگ نور حق و ہدایت سے خود محروم ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس سے محروم کرنے کے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اور اس طرح یہ لوگ ضلال اور اضلال کے دوہرے جرم و گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اپنے گھروں سے اس جوش و خروش اور طمطراق کے ساتھ ان بدبختوں کے نکلنے کا اصل مقصد اللہ کے بندوں کو اللہ کی راہ سے روکنا تھا۔ لیکن ان مت کے مارے ہوؤں کو اس کا علم نہیں تھا کہ یہ چیز ان کے بس کا روگ نہیں۔ اور آسمان پر تھوکا انسان کے اپنے ہی منہ پر آ لگتا ہے۔ سو اس طرح ایسے لوگ دین حق کا تو کچھ نہیں بگاڑیں گے لیکن اپنی محرومی اور سیاہ بختی کے داغ کو ضرور پکا اور گہرا کریں گے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہر شر اور فتنہ سے محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 100 اللہ تعالیٰ کے احاطہ علم وقدرت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا اور اللہ پوری پوری طرح احاطہ کیے ہوئے ہے ان کے سب کاموں کا۔ یعنی اپنے علم اور قدرت کے اعتبار سے۔ پس نہ تو ان کا کوئی عمل اور اس کی کوئی کیفیت اس کے احاطہ علم سے باہر ہوسکتی ہے اور نہ ہی یہ اس کی گرفت و پکڑ سے کسی طرح نکل سکتے ہیں۔ اور نہ ہی ایسے لوگ اپنی حرکتوں سے اسلام کا راستہ روکنے اور اسکے نور کو بجھانے کی کوششوں میں کبھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں ان کو جو ڈھیل اور چھوٹ ملی ہوئی ہے وہ بھی ایک خاص مدت تک ہے اور بس کہ ان کا کوئی بھی عمل اس قادر مطلق کے احاطہ علم وقدرت سے باہر نہیں ہوسکتا۔ سو ان عقل کے اندھوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ انسان خواہ کتنی ہی وسعت کے ساتھ اپنا جال پھیلائے اور اپنی ترکتازیوں کے کتنے ہی جوہر دکھائے اور مظاہرے کرے، اس کی ہر چیز ہر وقت اور ہر حال میں خداوند قدوس کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ اس لئے ہوگا وہی جو اس کو منظور ہوگا۔ اور ان کو چھوٹ اسی حد تک ملے گی جو اس کی مشیت کے ماتحت ہوگی اور بس۔ کہ وہ وحدہ لا شریک ان کے سب کاموں کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top