Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 53
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ اللّٰهَ : اللہ لَمْ يَكُ : نہیں ہے مُغَيِّرًا : بدلنے والا نِّعْمَةً : کوئی نعمت اَنْعَمَهَا : اسے دی عَلٰي قَوْمٍ : کسی قوم کو حَتّٰي : جب تک يُغَيِّرُوْا : وہ بدلیں مَا : جو بِاَنْفُسِهِمْ : ان کے دلوں میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
یہ اس لئے کہ اللہ ایسا نہیں کہ بدل دے کسی ایسی نعمت کو جو اس نے عطا فرمائی ہو کسی قوم کو، یہاں تک کہ وہ لوگ (اپنی بدنصیبی سے) خود بدل نہ دیں ان حالات کو، جن کا تعلق خود ان کی اپنی ذاتوں سے ہے، بیشک اللہ سنتا (ہر کسی کی اور) جانتا ہے (سب کچھ) ،3
114 قوموں کی ترقی اور ان کے عروج کی بنیاد اخلاق و کردار : سو اللہ تعالیٰ کسی قوم سے اپنی عطا کردہ نعمت کو چھینتا نہیں۔ یہاں تک کہ وہ لوگ اپنی حالت کو خود بدل دیں کہ کرم والی کوئی ذات کسی پر کوئی عنایت کرنے کے بعد اس کو واپس نہیں لیتی کہ یہ بات اس کی اپنی شان کرم کے خلاف ہوتی ہے۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس و اعلیٰ کے کہنے ہی کیا جو کہ اکرم الاکرمین ہے۔ اور جس کا کرم حقیقی اور لامتناہی کرم ہے اور جس کی شان ہی کرم فرمانا ہے۔ مگر جب کوئی بدنصیب قوم اپنی ناشکری اور بداطواری سے اپنے آپ کو اس نعمت کے قابل نہ رہنے دے تو پھر اس قادر مطلق کے عدل وانصاف کا مقتضیٰ اور اس قوم کی اس ناشکری کا طبعی تقاضا یہی ہوتا ہے کہ وہ نعمت اس سے چھین لی جائے۔ جیسا کہ فرعون والوں اور ان سے بھی پہلے کے کافروں کے ساتھ بالفعل ہوچکا ہے۔ اور اس کی تازہ مثال کفار قریش تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم الشان نعمتوں سے نوازا۔ ان کو بھوک سے بچا کر بافراغت کھانا بخشا۔ خوف کی بجائے امن سے سرفراز فرمایا۔ نبی آخر الزمان کو ان کے اندر مبعوث فرماکر ان کو اپنی کامل ہدایت کی اس اَبَدی نعمت سے بہرہ ور فرمایا جو دارین کی سعادتوں اور حقیقی فوز و فلاح کی ضامن وکفیل ہے۔ مگر انہوں نے ان عظیم الشان نعمتوں کی قدر نہ پہچانی اور انہوں نے انکار و تکذیب ہی سے کام لیا۔ تو اس کے نتیجے میں آخر کار وہ اپنے اس انجام سے ہم کنار ہوئے جس کے وہ اپنے اعمال و کردار کی بناء پر مستحق تھے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو قوموں کا عروج اور ان کی ترقی دنیاوی مال و اَسباب کی فراوانی اور تعداد کی کثرت و بڑھوتری پر نہیں، جیسا کہ ابنائے دنیا کا کہنا اور ماننا ہے۔ اور جس کی بناء پر کفار و مشرکین کہا کرتے تھے { نَخْنُ اَکْثَرُ اَمْوَالاً وَّاَوْلَادًَا، وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ } (سبا : 35) ۔ سو قوموں کی ترقی اور ان کے عروج کی اصل بنیاد یہ نہیں جیسا کہ ایسے لوگوں نے سمجھ رکھا ہے، بلکہ ان کی ترقی کی اساس و بنیاد ایمان و اخلاق کی دولت اور صالح کردار پر ہے۔ یہ دولت جب کسی قوم میں موجود ہوگی تو وہ قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوگی خواہ وہ مادی اعتبار سے بالکل تہی دامن ہی کیوں نہ ہوں۔ اور یہ چیز جب نہیں تو وہ قوم ہلاکت کی راہ پر ہے، خواہ دنیاوی اعتبار اور مادی لحاظ سے کتنے ہی عروج پر کیوں نہ ہو ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top