Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 64
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی حَسْبُكَ : کافی ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ وَمَنِ : اور جو اتَّبَعَكَ : تمہارے پیرو ہیں مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اے پیغمبر ! کافی ہے آپ کو بھی، اور ان تمام اہل ایمان کو بھی جو آپ کی پیروی کرتے ہیں،4
138 اور کافی ہے اللہ آپ کو اور جملہ اہل ایمان کو : یعنی { وَمَنْ } کا عطف لفظ اللہ ۔ جَلَّ جَلَالَہ ۔ پر نہیں، بلکہ { حَسْبُکَ } کے مضاف الیہ پر ہے۔ یعنی ضمیر مجرور پر کہ کفایت صرف اللہ ہی کی کفایت ہے۔ جیسا کہ اوپر کی آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا { فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ } نیز دوسری متعدد آیات کریمہ میں بھی یہی بیان فرمایا گیا۔ جیسے { حَسْبُنَا اللّٰہُ } " کافی ہے ہمیں اللہ " اور { حَسْبِیَ اللّٰہُ } " کافی ہے مجھے اللہ " وغیرہ۔ اس لئے حضرات مفسرین کرام بالعموم اسکا مطلب یہی بیان کرتے ہیں یعنی " اَللّٰہُ کَافِیْکَ وَکَافِی مَنْ اَتَّبَعَکَ " یعنی " اللہ کافی ہے آپ کو بھی اور ان سب اہل ایمان کو بھی جنہوں نے آپکی پیروی کی "۔ اور یہ ترکیب ایسے ہی ہے جیسے کہا جاتا ہے " حَسْبُکَ وَزیْدًا دِرَہُمٌ " یعنی " ایک درہم کافی ہے آپ کو بھی اور زید کو بھی " (صفوہ، محاسن، ابن کثیر وغیرہ) ۔ سو اب معنی یہ ہوگا کہ اللہ کافی ہے آپ کو بھی اے پیغمبر اور کافی ہے ان سب ایمان والوں کو بھی جو آپ کی پیروی کرتے ہیں۔ اور اگر { وَمَنِ اتَّبِعَکَ } کا عطف لفظ جلالہ یعنی " اللہ " پر مانا جائے جیسا کہ اقرب مذکور ہونے کی وجہ سے یہ متبادر بھی ہے تو اس صورت میں بھی معنیٰ واضح ہے کہ اصل کفایت تو بہرحال اللہ پاک ہی کی ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کہ وہی سب کا مالک اور کارساز ہے۔ مگر اس نے اپنی اس کارسازی کے ضمن میں ظاہری اسباب کے درجے میں آپ کو ایسے سچے ایماندار اور مخلص و جاں نثار ساتھی بھی عطا فرما دئیے جو کہ آپ کے حکم و ارشاد پر اپنی جانوں کی بازی لگانے کو بھی اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں، جیسا کہ اوپر آیت نمبر 62 میں ارشاد فرمایا گیا ہے { ہُوَ الَّذِیْ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہ وَبِالْمُؤْمِنِیْن } اور جس کی کچھ وضاحت اوپر حاشیہ نمبر 134 میں بھی کردی گئی ہے۔ علامہ زمخشری جیسے محققین نے پہلے احتمال کو ہی اپنایا اور اس کو ترجیح دی ہے یعنی یہ کہ اللہ ہی کافی ہے آپ کو بھی اے پیغمبر اور ان اہل ایمان کو بھی جو آپ کی پیروی کرتے ہیں۔ اور علامہ ابن القیم ۔ (رح) ۔ نے " زاد المعاد " کے مقدمہ میں ٹھوس دلائل کے ساتھ اسی کو ترجیح دی ہے، جبکہ دوسرا قول مجاہد اور حضرت حسن بصری جیسے حضرات سے مروی ہے۔ اور صاحب جلالین وغیرہ کچھ اہل علم نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور اس کا مطلب بھی وہی ہے جو ابھی ہم نے اوپر بیان کیا جس کے مطابق اس دوسرے قول و احتمال کا مآل و مدعا بھی وہی قرار پاتا ہے جو کہ پہلے کا ہے مگر راحج قول بہرحال پہلا ہی ہے۔ بلکہ دوسرے احتمال کے بارے میں بعض اہل علم نے سخت الفاظ بھی کہے ہیں اور اس کو گمراہی اور کفریہ الفاظ میں سے قرار دیا ہے کہ ایسا کہنا ماننا { حَسْبِیَ اللّٰہُ }، { حَسْبُنَا اللّٰہُ } اور { اَ لَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ } جیسی دوسری متعدد آیات و نصوص کے خلاف اور انکے منافی ہے۔ (محاسن التاویل، حاشیہ جامع القرآن وغیرہ) ۔ سو حضرات اہل کی ان تصریحات کے مطابق اہل بدعت کے بعض بڑے تحریف پسندوں کی وہ سب تاویلات اور تک بندیاں ھَبَائً مَّنْثُورًا ہوجاتی ہیں جو انہوں نے اس آیت کریمہ سے متعلق کی ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ من کل سُوْئٍ وّزَیغٍ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر موقع پر اپنی حفاظت و کفایت کے سائے میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top