Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 105
وَ قُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ١ؕ وَ سَتُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَۚ
وَقُلِ : اور کہ دیں آپ اعْمَلُوْا : تم کیے جاؤ عمل فَسَيَرَى : پس اب دیکھے گا اللّٰهُ : اللہ عَمَلَكُمْ : تمہارے عمل وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) وَسَتُرَدُّوْنَ : اور جلد لوٹائے جاؤگے اِلٰى : طرف عٰلِمِ الْغَيْبِ : جاننے والا پوشیدہ وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر فَيُنَبِّئُكُمْ : سو وہ تمہیں جتا دے گا بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اور کہو (ان سے اے پیغمبر ! ) کہ تم لوگ کام کئے جاؤ، اللہ خود ہی دیکھ لے گا تمہارے کام کو اور اس کا رسول بھی، اور اہل ایمان بھی، اور تم سب کو بہر حال لوٹنا ہے اس کی طرف، جو کہ (ایک برابر) جانتا ہے نہاں وعیاں کو، پھر وہ خبر کر دے گا تم کو ان تمام کاموں کی جو تم کرتے رہے تھے (اپنی زندگیوں میں)2
196 عمل کی تعلیم و تلقین : " سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ عمل کیے جاؤ۔ تمہارے عمل کو اللہ بھی دیکھے گا، اس کا رسول بھی اور اہل ایمان بھی " اور عمل کی روشنی سے خود واضح ہوجائے گا کہ تم کتنے پانی میں ہو اور کہاں کھڑے ہو۔ پس زبانی کلامی دعو وں کی ضرورت نہیں بلکہ عمل سے اپنی صداقت کا ثبوت پیش کرو۔ اہل بدعت کے جو تحریف پسند { وَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہٗ } سے اپنے شرکیہ عقائد کے لئے استدلال کرتے ہیں وہ یہاں کیا کہیں گے کہ یہاں تو { وَرَسُولُہ } کے ساتھ { وَالْمُؤمِنوُنَ } کا اضافہ بھی موجود ہے۔ تو کیا وہ اپنی اس تحریفانہ منطق کی بناء پر سب اہل ایمان کو بھی حاضر ناظر اور عالم غیب مانیں گے ؟ اگر ایسا مانیں گے تو پھر اس میں پیغمبر کی کیا خصوصیت ہوئی ؟ (علیہ الصلوۃ والسلام) اور اگر نہیں تو کیوں ؟ مَا الفارق بینہما فما ہو جوابکم فہوجو اب اہل الحق فی مثل ہذہ المواقع کلہا ۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی میں نیک اعمال کی کمائی کی ترغیب و تلقین ہے۔ چناچہ مجاہد کہتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے وعید ہے کہ تمہارے اعمال قیامت کے روز اللہ، اللہ کے رسول اور اہل ایمان کے سامنے پیش کیے جائیں گے ( محاسن التاویل وغیرہ) ۔ اور قیامت کے روز ایسا بہرحال ہو کر رہے گا جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { یَوْمَئِذٍ تُعْرَضُوْنَ لاَ تَخْفَی مِنْکُمْ خَافِیَۃٌ} (الحاقۃ : 18) ۔ نیز فرمایا گیا { یَوْمَ تُبْلَی السَّرَائِر } (الطارق :9) اور کبھی اللہ تعالیٰ انسان کے اعمال کو دنیا میں بھی ظاہر فرما دیتا ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی کسی ایسی بند چٹان کے اندر بھی کام کرے جس میں نہ کوئی دروازہ ہو نہ سوراخ تو بھی اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو ظاہر فرما دے گا۔ وہ جیسا بھی عمل ہو۔ (کما رواہ احمد عن ابی سعید مرفوعا محاسن التاویل وغیرہ) ۔ نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے اعمال تمہارے مردہ قریبوں اور رشتہ داروں پر پیش کیے جاتے ہیں۔ سو اگر وہ عمل اچھے ہوں تو وہ خوش ہوتے ہیں۔ اور اگر وہ دوسری طرح کے ہوں تو وہ اللہ پاک کے حضور عرض کرتے ہیں کہ اللہ ان کو اس وقت تک موت نہیں دینا جب تک کہ ان کو بھی اسی طرح ہدایت سے نہ نواز دے جس طرح کہ تو نے ہمیں نوازا ہے۔ ( ابن کثیر، ابن جریر، قرطبی اور محاسن التاویل وغیرہ) ۔ اور امام بخاری نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ " جب تمہیں کسی مسلمان کا عمل اچھا لگے تو تم کہا کرو { اِعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہ وَالْمُوْمِنُوْنَ } اور صیح احادیث میں ارشاد فرمایا گیا کہ " جب اللہ تعالیٰ کسی انسان کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اس سے موت تک نیک عمل کراتا ہے "۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اس سے نیک عمل کس طرح کراتا ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ اس کو نیک عمل کی توفیق دیتا ہے۔ پھر اس کی جان قبض کرتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ (رواہ احمد عن انس بن مالک) (ابن کثیر، روح المعانی وغیرہ وکما رواہ احمد عن ابی سعید مرفوعا، محاسن التاویل وغیرہ) ۔ اَللَّہُمَّ ارْزُقْنَا حُسْنَ الْخِتَامِ وَاجْعَلْ خَیْرَ اَعْمَالِنَا خَوَاتِیْمَہَا وَخَیْرَ اَیَّامِنَا یَوْمَ بَقَائِکَ یَا ذَا الْجَلاَلِ وَالاِکْرَامِ-
Top