Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 122
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً١ؕ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠   ۧ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) لِيَنْفِرُوْا : کہ وہ کوچ کریں كَآفَّةً : سب کے سب فَلَوْ : بس کیوں لَا نَفَرَ : نہ کوچ کرے مِنْ : سے كُلِّ فِرْقَةٍ : ہر گروہ مِّنْھُمْ : ان سے۔ ا ن کی طَآئِفَةٌ : ایک جماعت لِّيَتَفَقَّهُوْا : تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں فِي الدِّيْنِ : دین میں وَلِيُنْذِرُوْا : اور تاکہ وہ ڈر سنائیں قَوْمَھُمْ : اپنی قوم اِذَا : جب رَجَعُوْٓا : وہ لوٹیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف لَعَلَّھُمْ : تاکہ وہ (عجب نہیں) يَحْذَرُوْنَ : بچتے رہیں
اور مومنوں کو یہ بھی نہیں چاہیے کہ وہ سب نکل پڑیں، پس انہوں نے ایسے کیوں نہ کیا کہ ان کی ہر بڑی جماعت چلی جاتی، تاکہ وہ دین میں سمجھ پیدا کریں، اور وہ اپنی قوم کو خبردار کریں جب کہ وہ ان کے پاس لوٹ کر آئیں، تاکہ وہ بچ سکیں،2
218 اہل ایمان کو حسن انتظام سے متعلق ایک حکم وارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ مؤمنوں کو یہ نہیں چاہئے کہ وہ سب نکل پڑیں۔ یعنی جہادفی سبیل اللہ کے لیے اور اپنے پیچھے کسی کو بھی نہ چھوڑیں۔ سو ایسا کرنا درست نہیں کہ یہ حسن انتظام کے خلاف ہے روایات میں ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر پیچھے رہ جانے والے منافقین کے بارے میں جو سخت آیات اور تنبیہات نازل ہوئیں تو اس کی بناء پر اس کے بعد کے غزوات وسرایا میں سب ہی لوگ نکل پڑے۔ تو اس سے روکنے کے لیے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ (جامع البیان وغیرہ) سو اس میں تنبیہ فرمائی گئی کہ مؤمنوں کو یہ نہیں چاہئے کہ سب ہی نکل پڑیں بلکہ حسب ضرورت معقول تعداد میں نکلیں بھی اور معقول تعداد کو پیچھے بھی چھوڑ جائیں۔ تاکہ ایک مستقل اور معتدبہ تعداددین کو سیکھنے سکھانے والوں کی بھی موجود ہو جو تعلیم دین کے فریضے کو نبھانے کا انتظام کرے۔ 219 قوم کو تنبیہ وتذکیر کی ضرورت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اہل ایمان کو اس طرح کرنا چاہئے تھا کہ ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت چلی جاتی تاکہ وہ لوگ دین میں سمجھ پیدا کریں اور وہ اپنی قوم کو خبردار کریں جب کہ وہ ان کے پاس لوٹ کر واپس آئیں تاکہ وہ ان کو خبردار کریں ان چیزوں سے جن سے ان کو بچنا ضروری ہے معلوم ہوا کہ ایک ایسی جماعت کا مسلمانوں کے اندر موجود ہونا ضروری ہے جو خودد ین سیکھ کر دوسروں کو سکھائے اور ان کی دینی راہنمائی کرئے ورنہ سب گنہگارہوں گے اسی کو فقہی اصطلاح میں " فرض کفایہ " کہا جاتا ہے اس آیت کریمہ کی تفسیر و تشریح میں کئی احتمال و اقوال ہیں جن کی تفصیل انشاء اللہ ہم اپنی مفصل تفسیر میں عرض کریں گے۔ وباللہ التوفیق۔ بہرکیف اس ارشاد کا ایک اہم محمل ومطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر ایک ایسی جماعت کا ہونا ضروری ہے جو دین میں تفقہ اور فہم و بصیرت حاصل کرے۔ تاکہ ایسے لوگ اپنی بقیہ قوم کو ان کے انجام سے خبردار کرسکیں اور ان کو اپنی آخرت کی اصل، حقیقی اور ابدی زندگی کے لیے تیاری کی تعلیم و تلقین کرتے رہیں کہ اصل کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ واباللہ التوفیق لمایحب ویریدوعلیٰ مایحب ویرید، وہوالہادی الیٰ سواء السبیل۔
Top