Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 129
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ١ۖۗ٘ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۠   ۧ
فَاِنْ تَوَلَّوْا : پھر اگر وہ منہ موڑیں فَقُلْ : تو کہ دیں حَسْبِيَ : مجھے کافی ہے اللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا عَلَيْهِ : اس پر تَوَكَّلْتُ : میں نے بھروسہ کیا وَھُوَ : اور وہ رَبُّ : مالک الْعَرْشِ : عرش الْعَظِيْمِ : عظیم
پھر بھی اگر یہ لوگ پھرے ہی رہیں (راہ حق و ہدایت سے) تو کہہ دیجیے کہ کافی ہے مجھے اللہ، کوئی معبود نہیں سوائے اس کے، میں نے اسی پر بھروسہ کر رکھا ہے۔ اور وہی ہے مالک عرش عظیم کا۔
230 اللہ تعالیٰ کی کفایت کے اعلان کا حکم وارشاد : سو پیغمبر کو خطاب کرکے حکم ارشاد فرمایا گیا کہ کہو کافی ہے مجھ کو اللہ اعانت ونصرت کے لئے کسی اور کی نہ مجھے کوئی ضرورت ہے نہ پرواہ۔ لہذا تمہارا راستہ الگ میرا الگ۔ (لکم دینکم ولی دین) سبحان اللہ نبیوں کے امام و پیشوا کو بھی اللہ ہی پر بھروسہ رکھنے کی تعلیم دی جارہی ہے اور آپ بھی فرما رہے ہیں کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے اور میرا بھروسہ اسی پر ہے۔ مگر افسوس کہ اس کے باوجودآج آپ کی امت کا کلمہ گو مشرک اللہ پاک کو چھوڑ کر اس کی عاجزمخلوق پر تکیہ کرتا اور اسی کو مدد کے لیے پکارتا ہے اور وہ دھڑلے سے کہتا ہے " یا علی مدد " یاغوث۔ بلکہ غوث الاعظم۔ دستگیر "، یا معین الدین چشتی پارلگادے کشتی " یابہاء الحق بیڑادھک " وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر انہی ہستیوں کو جن کو مرے ہوئے صدیاں گزرچکی ہیں خوش کرنے کیلئے وہ ان کے نام کی نذریں مانتا، نیازیں دیتا، چڑھاوے چڑھاتا اور طرح طرح کے دوسرے شرکیہ اعمال و افعال کا ارتکاب کرتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ فانا للہ وانآالیہ راجعون۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ قرآن وسنت کی تعلیمات مقدسہ کیا کہتی ہیں اور ان بزرگان دین کے اپنے ارشادات کیا تھے اور ان جاہلوں کے طور طریقے کیا ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ والیہ المشتکی وہو المستعان فی کل حین وآن۔ 231 اللہ ہی پر بھروسہ کرنے کی تعلیم و تلقین : سو ارشاد فرمایا گیا اور پیغمبر کی زبان سے کہلوایا گیا کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس (وحدہ لاشریک) کے۔ میں نے بہرحال اسی پر بھروسہ کر رکھا ہے اور وہی ہے مالک عرش عظیم کا۔ یعنی جو کہ مالک ہے اس عرش عظیم کا جو کہ سب مخلوق کو محیط اور اس کے لئے بمنزلہ چھت کے ہے۔ پس جب وہ اس عرش عظیم کا بھی مالک ہے تو باقی تمام مخلوق کا بھی بطریق اولی مالک ومختا رہے کہ یہ سب اس کے نیچے اور اس کے ماتحت ہے۔ پس جس کو ایسی ذات اقدس واعلیٰ پر توکل و بھروسہ کی سعادت نصیب ہو جو کہ سب کی خالق ومالک، سب پر حاکم و متصرف اور وکیل و مختار اور سب پر حاوی و محیط ہے تو اس کو اور کسی کی پرواہ ہی کیا ہوسکتی ہے ؟ سو اس سورة کریمہ کے بالکل آخر میں اب یہ پیغمبر کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اگر اب بھی یہ لوگ تمہاری قدر نہیں کرتے اور تمہاری بات ماننے کو تیار نہیں ہوتے تو ان کی پرواہ مت کرو بلکہ ان سے صاف طور پر کہہ دو کہ میرے لیے میرا اللہ کافی ہے جو کہ مالک ہے عرش عظیم کا۔ ایسے میں مجھے تمہاری کیا پرواہ ہوسکتی ہے ؟ واخر دعوانآ ان الحمدللہ رب العالمین۔ الذی بیدہ تصریف الامور وبتوفیقہ تتم الصالحات جل جلالہ وعم نوالہ۔ سبحانہ وتعالیٰ فایاہ نعبدوبہ نستعین فی کل ان وحین۔
Top