Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 16
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ لَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لَا رَسُوْلِهٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَةً١ؕ وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
اَمْ حَسِبْتُمْ : کیا تم گمان کرتے ہو اَنْ : کہ تُتْرَكُوْا : تم چھوڑ دئیے جاؤگے وَلَمَّا : اور ابھی نہیں يَعْلَمِ اللّٰهُ : معلوم کیا اللہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو جٰهَدُوْا : انہوں نے جہاد کیا مِنْكُمْ : تم میں سے وَلَمْ يَتَّخِذُوْا : اور انہوں نے نہیں بنایا مِنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ وَ : اور لَا رَسُوْلِهٖ : نہ اس کا رسول وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ : اور نہ مومن (جمع) وَلِيْجَةً : راز دار وَاللّٰهُ : اور اللہ خَبِيْرٌ : باخبر بِمَا تَعْمَلُوْنَ : اس سے جو تم کرتے ہو
کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم کو یونہی چھوڑ دیا جائے گا ؟ حالانکہ ابھی اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو دیکھا نہیں جنہوں نے جہاد کیا اور انہوں نے اللہ، اس کے رسول، اور مومنوں کے سوا، اور کسی کو جگری دوست نہیں بنایا اور اللہ پوری طرح باخبر ہے ان سب کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو،
36 ابتلاء و آزمائش تقاضائے عدل وحکمت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم لوگوں کو یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔ استفہام انکار کے لئے ہے۔ یعنی ایسے نہیں ہوسکتا اور ان لوگوں کو ایسے نہیں سمجھنا چاہیئے کہ ان کو آزمائش و امتحان کے بغیر یونہی چھوڑ دیا جائے گا اور یہ یونہی جنت کے وارث بن جائیں گے۔ نہیں ایسے نہیں ہوگا بلکہ کھرے کھوٹے کی تمیز کے لئے ابتلاء و آزمائش ضرور ہونی ہے کہ اسی سے ظاہر اور واضح ہوسکتا ہے کہ کون اپنے دعوائے ایمان میں سچا ہے اور کون جھوٹا ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو تم لوگوں نے اگر یہ سمجھ رکھا تھا کہ تمہیں یونہی چھوڑ دیا جائے گا اور تمہاری کوئی آزمائش نہیں ہوگی تو تمہارا یہ خیال غلط تھا۔ سو اس طرح کی آزمائش سے واضح ہوجائے گا کہ اپنی دعوے میں سچا اور کھرا کون ہے اور جھوٹا کون اور صحیح کون ہے اور غلط کون ؟۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ابتلاء و آزمائش تقاضائے عدل وحکمت ہے۔ 37 علم سے مراد " رویت " یعنی دیکھنا : سو ارشاد فرمایا گیا ۔ { ولما یعلم اللہ } ۔ " اللہ نے ابھی تک جانا نہیں " یعنی اللہ نے ابھی تک دیکھا نہیں ان لوگوں کو " سو علم سے یہاں پر رویت یعنی دیکھنا مراد ہے۔ اور علم کی نفی سے مراد ملزوم کی نفی ہے بطور مبالغہ۔ یعنی لازم بول کر ملزوم مراد لیا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ ایسی کوئی چیز ابھی وجود میں آئی ہی نہیں کیونکہ اگر وجود میں آئی ہوتی تو وہ اللہ پاک کے علم میں ضرور ہوتی۔ (المراغی، المحاسن وغیرہ) ۔ سو جنگ و جہاد ایک کسوٹی ہے جس سے غث و سمین اور کھرے کھوٹے میں تمیز ہوجاتی ہے اور اس سے معاملہ واضح ہوجاتا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کامل و محیط کے اعتبار سے پوری طرح جانتا ہے کہ کون اپنے دعوے میں کتنا کھرا ہے لیکن اس نے اس فرق وتمیز کے لیے یہ کسوٹی رکھی ہے۔ کہ ابتلاء و آزمائش کے ذریعے عملی طور پر ان کو نکھار کر الگ کردیا جائے۔ تاکہ اس کے بعد کسی کے لیے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ 38 " وَلِیْجۃ " کا معنیٰ و مفہوم ؟ : " وَلِیْجۃ " لفظِ " وَلُوْج " سے ماخوذ ہے جس کے معنیٰ گھسنے اور داخل ہونے کے آتے ہیں " ای مَنْ یُّدَاخِلُہٗ فِیْ بَاطِنِ اُمُوْرِہ " (صفوۃ البیان) ۔ اسی لئے اس کا ترجمہ " رازداں " اور " جگری دوست " جیسے کلمات سے کیا جاتا ہے۔ مطلب اس استفہام کا یہ ہوا کہ تم کو اے مومنو ! یونہی نہیں چھوڑ دیا جائے گا بلکہ امتحان اور آزمائش لازمی ہے تاکہ کھرے کھوٹے اور اچھے برے کی تمیز ہوجائے اور وہ لوگ نکھر کر سامنے آجائیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور انہوں نے اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کیخلاف کسی کو اپنا رازداں اور جگری دوست نہیں بنایا کہ مومن کی جگری دوستی مومن ہی سے ہوسکتی ہے اور مومن ہی سے ہونی چاہیئے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل - 39 اللہ تعالیٰ کے علم وآگہی کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا اور اللہ پوری طرح باخبر ہے ان تمام کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو۔ اس لئے اس سے تمہاری کوئی بھی حالت اور کیفیت پوشیدہ نہیں رہ سکتی اور اختبار و آزمائش تو محض تمہارے باطن کی کیفیت کے اظہار کے لئے ہوتا ہے تاکہ تمہارے اندر کا حال کھل کر اور نکھر کر سب کے سامنے آجائے۔ ورنہ وہ تو دلوں کے بھیدوں تک کو پوری طرح جانتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اس لیے ہمیشہ فکر و کوشش اس امر کی ہونی چاہیئے کہ اس علیم وخبیر ذات اقدس و اعلی سے ہمارا معاملہ صحیح رہے۔ اپنے ظاہر کے اعتبار سے بھی اور باطن کے اعتبار سے بھی ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید ۔ وہو الہادی الی سواء السبیل -
Top