Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 20
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ١ۙ اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْفَآئِزُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَهَاجَرُوْا : اور انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور جہاد کیا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَ : اور اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں اَعْظَمُ : بہت بڑا دَرَجَةً : درجے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے ہاں وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی لوگ هُمُ : وہ الْفَآئِزُوْنَ : مراد کو پہنچنے والے
جو لوگ ایمان لائے، انہوں نے ہجرت کی، اور جہاد کیا اللہ کی راہ میں، اپنے مالوں سے بھی، اور اپنی جانوں سے بھی، اللہ کے یہاں ان کا درجہ بہت بڑا ہے، اور یہی لوگ ہیں کامیاب ہونے والے،
46 اہل ایمان کے لیے سب سے بڑے درجے کی خوشخبری : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ سچے ایمان والوں کیلئے اللہ تعالیٰ کے یہاں سب سے بڑا درجہ ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ ایمان لائے انہوں نے ہجرت اور جہاد کیا اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا و خوشنودی کے لیے ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت بڑا درجہ ہے۔ سو ایسوں کا درجہ و مرتبہ بہت بڑا ہے۔ ان لوگوں کے مقابلے میں جو ان صفات سے محروم ہیں۔ اور پھر ان کا درجہ کتنا بڑا ہے اس کی تحدید نہیں فرمائی گئی کہ اس کی عظمت اور بڑائی کو اللہ پاک ہی جانتا ہے ۔ جل جلالہ وعم نوالہ ۔ سو سچے ایمان والوں کا درجہ اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت بڑا ہے۔ اور جتنا کوئی ایمان میں سچا اور پکا اور اعمال میں مخلص ہوگا اتنا ہی اس کا درجہ بڑا ہوگا ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں کا درجہ و مرتبہ بہت بڑا ہے جو سچے پکے ایمان کی دولت سے سرشار ہیں اور اسی کی روشنی میں وہ اللہ کی رضا کے لیے ہجرت کرتے اور اس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ اپنی جانوں سے بھی اور اپنی مالوں سے بھی۔ سو اللہ تعالیٰ کے یہاں محض حسب و نسب کی مفاخرت زبانی کلامی دعو وں اور فلان ابن فلاں نسبتوں سے کا من نہیں چلے گا بلکہ اس کے لیے صدق ایمان اور عمل و کردار کی پونجی ہی کام آسکے گی ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید ۔ اللہ ہمیشہ راہ حق و ہدایت پر ثابت قدم رکھے ۔ آمین۔ 47 کامیاب لوگوں کی نشاندہی : سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر وقصر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہی لوگ ہیں کامیاب ہونے والے۔ پس اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اصل اور حقیقی کامیابی ان اہل ایمان ہی کیلئے ہے : جن کا ایمان و عقیدہ بھی درست ہو اور عمل و کردار بھی ۔ سو یہاں پر حصر کے ساتھ فرمایا گیا کہ یہی لوگ ہیں کامیابی اور حقیقی فوز و فلاح سے سرفراز ہونے والے کہ یہ خوش نصیب ان عظیم الشان دائمی اور سدا بہار نعمتوں سے ہمکنار و سرفراز ہوں گے جن کو کبھی زوال نہیں، جن کی عظمت شان اور بلندی مقام کا اس دنیا میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اور جن کے سامنے دنیا کی ہر نعمت اور تمام کامیابیاں ہیچ ہیں ۔ اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنَا بِمَحْضِ مَنِّکَ وَکَرَمِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔ پس اصل اور حقیقی کامیابی یہی ہے ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ آمین۔ سو ایمان و یقین کی دولت سے محروم جن لوگوں نے اپنے آپ کو کامیاب سمجھ رکھا ہے اور وہ دنیاوی مال و دولت اور جاہ و منصب وغیرہ کو اپنی کامیابی کی علامت اور نشانی قرار دیتے ہیں وہ سب سراسر دھوکے میں پڑے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اس کی اصل اور پوری حقیقت کل کے اس یوم حساب میں پوری طرح واضح ہوجائے گی جس کو یوم قیامت کہا جاتا ہے اور جو کہ کشف حقائق اور ظہور نتائج کا جہاں ہوگا ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top