Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 25
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ١ۙ وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ١ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ
لَقَدْ : البتہ نَصَرَكُمُ : تمہاری مدد کی اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں مَوَاطِنَ : میدان (جمع) كَثِيْرَةٍ : بہت سے وَّ : اور يَوْمَ حُنَيْنٍ : حنین کے دن اِذْ : جب اَعْجَبَتْكُمْ : تم خوش ہوئے (اترا گئے كَثْرَتُكُمْ : اپنی کثرت فَلَمْ تُغْنِ : تو نہ فائدہ دیا عَنْكُمْ : تمہیں شَيْئًا : کچھ وَّضَاقَتْ : اور تنگ ہوگئی عَلَيْكُمُ : تم پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : فراخی کے باوجود ثُمَّ : پھر وَلَّيْتُمْ : تم پھرگئے مُّدْبِرِيْنَ : پیٹھ دے کر
بلاشبہ اللہ مدد فرماچکا ہے تمہاری (اے مومنو ! ) بہت سے موقعوں میں، اور حنین کے دن بھی، جب کہ تم غرے میں آگئے تھے اپنی کثرت کی بناء پر، پھر تمہاری وہ کثرت تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکی، اور تنگ ہوگئی تم پر زمین اپنی فراخی کے باوجود، پھر تم لوگ بھاگ نکلے پیٹھ دے کر،
53 معرکہ حنین میں اللہ کی مدد کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا اور بلاشبہ اللہ بہت سے مواقع پر تمہاری مدد فرما چکا ہے [ اے مسلمانو !] اور حنین کے دن بھی جبکہ تم لوگ غرے میں آگیے تھے اپنی کثرت کی بنا پر مگر وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکی۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ فتح و نصرت کا مدار کثرت تعداد پر نہیں بلکہ اللہ کی نصرت و امداد پر ہے۔ حنین مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان ایک وادی کا نام ہے جس میں فتح مکہ کے بعد مسلمانوں اور کفار کے درمیان معرکہ ہوا تھا، جو غزوہ حنین کے علاوہ غزوئہ ہوازن و ثقیف کے نام سے بھی مشہور ہے۔ جس میں مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ اور اپنی اس عددی کثرت کو دیکھ کر بعض مسلمانوں کے مونہوں سے نکلا کہ " آج ہم کمّی بناء پر کسی بھی طرح مغلوب نہیں ہوسکتے " " لَنْ نُّغْلَبَ الْیَوْمَ مِنْ قِلَّۃٍ " کیونکہ اتنی بڑی تعداد مسلمانوں کی اس سے پہلے کسی بھی معرکے میں جمع نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے ان کے دلوں میں اپنی کثرت تعداد کی بناء پر یہ خیال پیدا ہوگیا جو کہ ایک طرح کا طبعی امر تھا۔ مگر ایسا خیال ان سچے مسلمانوں کی عظمت شان کے لائق اور انکے شایان شان نہیں تھا۔ اس لیے ان پر اس بنا پر گرفت فرمائی گئی جس سے ان کے جمے ہوئے قدم اکھڑ گئے اور ان کی فتح شکست میں بدل گئی۔ اور اس طرح ان کو اور ان کے ذریعے پوری امت کو یہ درس دیا گیا کہ فتح و نصرت کا مدار کثرت تعداد پر نہیں بلکہ حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی نصرت و امداد پر ہے۔ اس لیے اہل ایمان کو اصل بھروسہ اسی وحدہ لاشریک پر اور اسکی تائید و نصرت اور اسکی امداد و اعانت پر رکھنا چاہیئے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید - 54 مومن کا اصل سرمایہ نصرت و امداد خداوندی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تمہارے کچھ کام نہ آسکی تمہاری وہ کثرت۔ پس معلوم ہوا کہ مسلمان کا اصل سرمایہ نصرت و تائید خداوندی ہے نہ کہ دنیاوی اسباب و وسائل کی کثرت۔ اس لئے اسباب تو بیشک مقدور کی حد تک اختیار کئے جائیں لیکن دل کا اعتماد و بھروسہ ہمیشہ اللہ پر اور صرف اللہ ہی پر رکھا جائے { وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ } اسی لیے انکو ہمیشہ اسی بات کو پیش نظر اور ملحوظ خاطر رکھنا چاہیئے کہ اس خالق ومالک کے ساتھ ہمارا تعلق صحیح اور مضبوط ہو، تاکہ اس کی تائید و نصرت حاصل رہے کہ اس کی تائید و نصرت سے سرفرازی کے بعد پھر نہ کوئی شکست دے سکتا ہے اور نہ کسی سے کوئی خطرہ ہوسکتا ہے۔ کہ وہ اس ساری کائنات کا خالق ومالک اور اس میں بلا شرکت غیرے حاکم و متصرف ہے۔ اور اس کی نصرت و امداد کے طور طریقوں اور اسکے لشکروں کو بھی اس کے سوا کوئی جان نہیں سکتا { وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ہُوَ } اللہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں سے نوازے اور ہمیشہ اور ہر حال میں اور ہر لحظہ و لمحہ میں اپنی عبدیت و عبودیت اور اطاعت و بندگی میں رکھے ۔ اَللّٰہُمَّ فَہٰذِہِ نَوَاصِیَنَا بَیْنَ یَدَیْکَ فَخُذْنَا بِہَا اِلٰی مَا تُحِبُّ وَ ترضی وَنَحْنُ بِکَ وَلَکَ وَاِلَیْکَ اَنْتَ مَوْلاَناَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ- 55 حنین میں شکست کے بعد مسلمانوں کی فتح : سو حنین کے اس معرکے کی تصویر پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگوں پر زمین تنگ ہوگئی اپنی فراخی کے باوجود۔ پھر تم لوگ بھاگ کھڑے ہوئے پیٹھ دے کر سوائے حضرت صاحب رسالت ۔ عَلَیْہِ اَفْضُلَ الصَّلٰوۃِ وَاَتَمُّ التَّسْلِیْمِ ۔ کے کہ آپ ﷺ پہاڑ کی سی استقامت اور مضبوطی کے ساتھ اپنی جگہ قائم رہے اور آپ کے ساتھ حضرت عباس ؓ اور حضرت ابوسفیان ؓ وغیرہ صحابہء کرام ۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔ کی ایک مختصر سی جماعت بھی جو کہ بعض روایات کے مطابق تین سو تھی اور بعض کے مطابق بارہ تھی۔ وہ بھی آپ کے ساتھ موجود رہی۔ مگر وہ بھی یہ نہیں چاہ رہے تھے کہ آپ ﷺ آگے بڑھیں۔ سو اس موقعہ پر حضور ﷺ نے حضرت عباس ؓ کو حکم دیا کہ بلند آواز سے پکارو کہ کہاں ہیں جنہوں نے شجرہ کے نیچے جہاد کی بیعت کی تھی ؟ کہاں ہیں سورة بقرہ والے اور کہاں ہیں وہ انصار جنہوں نے جان کی بازی لگا دینے کا عہد کیا تھا ؟ سب سے کہو کہ واپس آؤ اللہ کے رسول ﷺ یہاں ہیں۔ حضرت عباس ؓ کی یہ آواز بجلی کی کوند کی طرح سب طرف دوڑ گئی۔ اس سے سب بھاگنے والوں کو پشیمانی لاحق ہوئی۔ ان کو اپنی تقصیر اور کوتاہی کا احساس ہوا اور انہوں نے پلٹ کر بڑی بےجگری اور بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا اور اس کے ساتھ ہی فرشتوں کی مدد بھی ان کو پہنچ گئی، جس سے دشمن کے حوصلے ٹوٹ گئے اور ان کے چھکے چھوٹ گئے اور ان کا کمانڈر مالک بن عوف اپنے اہل و عیال اور مال و متاع سب کو چھوڑ کر بھاگ نکلا اور طائف کے قلعے میں جا چھپا، جسکے نتیجے میں اس کی پوری قوم بھاگ نکلی۔ ان کے ستر سردار مارے گئے اور ان کا سب مال و متاع مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔ چھ ہزار جنگی قیدی، چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی کا مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔ (معارف، ابن کثیر اور قرطبی وغیرہ) ۔ اس طرح مسلمانوں کو ابتدائی طور پر جھنجھوڑنے اور پھر فتح سے ہمکنار کردیا گیا ۔ فالحمد للہ ۔ سو فتح ونصرت اور انجام کار کامیابی اہل حق ہی کی ہے ۔ والعاقبۃ للمتقین ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رحمت و عنایت کے سائے میں رکھے ۔ آمین۔
Top