Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 26
ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ
ثُمَّ : پھر اَنْزَلَ : نازل کی اللّٰهُ : اللہ سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسکین عَلٰي : پر رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول وَعَلَي : اور پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کی وَاَنْزَلَ : اور اتارے اس نے جُنُوْدًا : لشکر لَّمْ تَرَوْهَا : وہ تم نے نہ دیکھے وَعَذَّبَ : اور عذاب دیا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) وَذٰلِكَ : اور یہی جَزَآءُ : سزا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
پھر اللہ نے (اپنے کرم سے) اتاردی اپنی سکینت اپنے رسول اور دوسرے اہل ایمان پر، اور اس نے اتار دیئے ایسے لشکر جو تمہیں نظر نہیں آرہے تھے، اور اس نے سزادی کافروں کو، اور یہی ہے بدلہ کافروں کا،3
56 فرشتوں کی غیبی مدد کی عنایت کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ پھر اللہ نے اتارے ایسے لشکر جو تم لوگوں کی نظر میں آ رہے تھے۔ یعنی فرشتوں کے لشکر (جامع البیان، صفوۃ التفاسیر وغیرہ) ۔ سو فرشتوں کے یہ لشکر اللہ تعالیٰ نے تمہاری نصرت و امداد کیلئے فوری اور خاص طور پر بھیجے اور یہ بھی ظاہری اسباب کے درجے میں تاکہ اس سے تمہارے دلوں کے اطمینان کا سامان ہوسکے۔ ورنہ اصل مدد پھر بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے تھی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے کلمات حصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا { وَمَا النَّصْرُ الاَّ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ }۔ یعنی " مدد تو اصل میں اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے جو کہ بڑا ہی زبردست نہایت ہی حکمت والا ہے "۔ بہرکیف یہاں پر اس آیت کریمہ میں ارشاد فرما دیا گیا کہ حنین کے اس معرکے کے شروع میں جو صورت پیش آئی وہ محض ایک قسم کی تنبیہ اور تذکیر کے طور پر تھی جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوئی۔ ان کے اکھڑے ہوئے قدموں کو پھر سے جما دیا گیا۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی سکینت کا بھی سبب و ذریعہ بنی جس سے لڑائی کا پانسہ پلٹ گیا اور شکست کو فتح میں تبدیل کردیا گیا۔ سو معاملہ سب کا سب اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اس لیے دل کا بھروسہ ہمیشہ اسی پر رکھا جائے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید - 57 کافروں کے کفر کی کچھ سزا دنیا میں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ نے سزا دی کافروں کو اور یہی بدلہ ہے کافروں کا کہ انہوں نے شکست کھائی، قتل و قید کی ذلت اٹھائی اور اپنے ساتھ لائے ہوئے مال و دولت کے انبار ان کو بطور غنیمت مسلمانوں کے حوالے کرنا پڑے۔ سو مسلمانوں کے ہاتھوں مغلوب اور مفتوح ہونے کی یہ سزا جو ان کے کفر کی نقد سزا کے طور پر ان کو ملی، محسوس و مشاہد اور دنیاوی سزا تھی۔ جبکہ اصل اور حقیقی سزا ان کو آخرت میں ملے گی جو کہ بہت بڑی اور سخت سزا ہوگی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا { وَلَعَذَاب الاخِٓرَۃِ اَکْبَر } پس کافر اگر دنیاوی شکست اور یہاں کے عذاب سے بچ بھی جائیں تو بھی انکو آخرت کا عذاب بہرحال بھگتنا ہے۔ دنیا میں خواہ ان کو شکست اور عذ 1 ب ہو یا نہو وہاں کا عذاب تو ان کے لیے بہرحال طے اور مقرر ہے۔ سو کفر محرومیوں کی محرومی اور دارین کی ذلت و رسوائی کا باعث ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ جبکہ ایمان کی صورت میں اگر دنیاوی فتح نصیب ہو تو کامیابی پر کامیابی۔ نہیں تو اجر وثواب اور آخرت کی کا میابی بہرحال مقرر و محقق ہے۔ سو ایمان و یقین کی دولت سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے ۔ والحمد للہ رب العالمین الذی شرفنا بنعمۃ الایمان والیقین ۔ اللہم فزدنا منہ وثبتنا علیہ یا ذا الجلال والاکرام -
Top