Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) مَا لَكُمْ : تمہیں کیا ہوا اِذَا : جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَكُمُ : تمہیں انْفِرُوْا : کوچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اثَّاقَلْتُمْ : تم گرے جاتے ہو اِلَى : طرف (پر) الْاَرْضِ : زمین اَرَضِيْتُمْ : کیا تم نے پسند کرلیا بِالْحَيٰوةِ : زندگی کو الدُّنْيَا : دنیا مِنَ : سے (مقابلہ) الْاٰخِرَةِ : آخرت فَمَا : سو نہیں مَتَاعُ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر قَلِيْلٌ : تھوڑا
ایمان والو ! تم کو کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ نکلو تم اللہ کی راہ میں، جہاد و قتال کے لئے تو تم گرے جاتے ہو زمین پر، کیا تم لوگ راضی ہوگئے آخرت کے مقابلے میں اسی (چندروزہ) دنیاوی زندگی پر ؟ سو (واضح رہے کہ) دنیاوی زندگی کا یہ متاع فانی تو آخرت کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے،1
85 غزوئہ تبوک کا ذکر اور جہاد کی ترغیب : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایمان والو تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ تم لوگ اللہ کی راہ میں جہاد و قتال کے لیے نکلو تو تم لوگ زمین پر ڈھے جاتے ہو کیا تم لوگ آخرت کے مقابلے میں اسی دنیاوی زندگی پر راضی ہوگئے ہو ؟ استفہام یہاں پر انکاری ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ایمان والوں کی شان یہ نہیں ہوا کرتی بلکہ ان کی شان یہ ہوتی ہے اور یہی ہونی چاہیئے کہ جب ان کو جہاد کیلئے بلایا جائے تو یہ اس کیلئے فوراً اٹھ کھڑے ہوں۔ بہرکیف یہاں سے اس سورة کریمہ کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے جس کا تعلق غزوئہ تبوک سے ہے اور جو آنحضرت ﷺ کا آخری غزوہ ہے۔ جو سنہ 9 میں ہوا اور جو بڑی تنگی اور دشواری کے عالم میں پیش آیا تھا۔ اسی لئے اس کو غزوئہ ذات العسرہ بھی کہا جاتا ہے۔ جس کی تفصیلات میں بہت کچھ دروس عبرت ہیں۔ جو انشاء اللہ ہم اپنی مفصل تفسیر میں عرض کریں گے اگر زندگی نے وفا کی اور قدرت کو منظور ہوا تو ۔ فَاِنَّہٗ بِیَدِہِ الاَمْرُ کُلُّہْ جَلَّ وَعَلا وَتَبَارَکَ وَتَعَالٰی ۔ اللہ بقدر کفایت اس کا کچھ ذکر ان مختصر حواشی و فوائد میں بھی آجائے گا ۔ انشاء اللہ ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 86 دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لینا خساروں کا خسارہ ۔ والعیاذ باللہ : سو آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی پر راضی ہوجانا اور اسی کو سب کچھ سمجھ لینا خساروں کا خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ استفہام یہاں پر انکاری ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ دنیاوی زندگی آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ معلوم ہوا کہ اصل ممنوع و محظور دنیا کی وہ محبت ہے جو آخرت کے مقابلے میں ہو کہ یہی دراصل باعث ہے خسران مبین کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی پر راضی ہوجانا خساروں کا خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کہ دنیاوی زندگی اور اس کی ہر چیز فانی ہے۔ اور یہاں پر انسان کو عیش و عشرت اور آرام و راحت کا جو بھی سامان مل جائے وہ بہرحال وقتی، عارضی اور فانی ہے جس نے وقت آنے پر بہرحال فنا کے گھاٹ اتر کر رہنا ہے جبکہ آخرت اور وہاں کی ہر نعمت کامل بھی ہے اور ابدی و دائمی بھی۔ سو عارضی اور فانی کو دائمی اور ابدی پر ترجیح دینا سب سے بڑی حماقت، خساروں کا خسارہ اور محرومیوں کی محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اسی لیے قرآن حکیم نے ایسے لوگوں کی عقل و ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے خطاب کیا اور ارشاد فرمایا { بَلْ تُؤثِرُوْنَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی } (الاعلی :61 ۔ 17) ۔ یعنی خفا والتباس کی کوئی وجہ نہیں کہ حق پوری طرح واضح ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت دنیا سے کہیں بڑھکر بہتر اور اعلی و عمدہ ہے اور ہمیشہ رہنے والی بھی ۔ والعیاذ باللہ من کل سوء وانحراف۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر لحاظ سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 87 دنیاوی زندگی آخرت کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے : کمیت کے اعتبار سے بھی اور کیفیت کے لحاظ سے بھی کہ آخرت کے مقابلے میں ایک تو دنیا کا ظرف ہی بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے اور دوسرے اس لئے کہ اس کی ہر نعمت عارضی وفانی ہے۔ جبکہ جنت کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ آسمان و زمین کی مجموعی وسعت کے برابر اس کا عرض ہوگا جو کہ طول سے کم ہوتا ہے۔ تو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جنت کس قدر وسیع ہوگی ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ آمین۔ پھر اس کی ہر نعمت عظیم الشان اور کامل و بےمثال اور دائمی و ابدی ہے { وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی } (الاعلیٰ : 17) ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔ سو آخرت اور اس کے تقاضوں کو بھول کر اور ان کو پس پشت ڈال کر دنیا کی چکا چوند پر ریجھ کر اور اسی کا ہو کر رہ جانا خساروں کا خسارہ اور ہلاکتوں کی ہلاکت ہے ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا -
Top