Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 44
لَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ
لَا يَسْتَاْذِنُكَ : نہیں مانگتے آپ سے رخصت الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت اَنْ : کہ يُّجَاهِدُوْا : وہ جہاد کریں بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنین جان (جمع) وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِالْمُتَّقِيْنَ : متقیوں کو
وہ لوگ تو آپ سے اجازت مانگتے ہی نہیں جو (صدق دل سے) ایمان رکھتے ہیں، اللہ پر اور قیامت کے دن پر، اس سے کہ وہ جہاد کریں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے، اور اللہ خوب جانتا ہے پرہیزگاروں کو،4
99 قوت ایمان سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ قوت ایمان و یقین سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ اور اس سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایمان والے تو آپ سے پیچھے رہنے کی اجازت مانگتے ہی نہیں۔ بلکہ وہ تو جہاد و قتال کے ایسے موقعوں میں شامل و شریک ہونا اور ان میں حصہ لینا ایک عظیم سعادت اور ذریعہ قرب و نجات سمجھتے ہیں۔ اور اس کی آرزو اور تمنا رکھتے ہیں۔ ہاں مرض نفاق کے روگی اور مریض ہیں جو اس طرح کے جھوٹے حیلے بہانوں کے ذریعے اجازت مانگتے اور جہاد و قتال میں شرکت کے شرف سے محروم رہتے ہیں۔ سو ایمان و یقین کی قوت دنیا و آخرت کی سعادت و کامرانی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے جبکہ اس سے محرومی ۔ والعیاذ باللہ ۔ ہر خیر سے محرومی کا باعث ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف اس ارشاد سے منافقین اور مخلصین کے درمیان ایک نمایاں اور واضح فرق بیان فرما دیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر سچا پکا ایمان رکھتے ہیں وہ جہاد سے پیچھے رہنے کے لیے اجازت نہیں مانگتے بلکہ وہ شرکت جہاد کے شرف سے مشرف ہونے کے لیے سچی طلب رکھتے ہیں۔ لیکن جو نفاق کے روگی ہیں اور ان کے ایمان کے دعوے محض زبانی کلامی اور کھوکھلے ہیں وہی پیچھے رہنے کے لیے درخواستیں پیش کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اصل دولت ایمان و یقین کی دولت ہی ہے ۔ والحمد للہ جل وعلا - 100 اللہ تعالیٰ کے کمال علم کا حوالہ و ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ خوب جانتا ہے پرہیزگاروں کو۔ سو وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کون متقی و پرہیزگار ہے اور کون نہیں ؟ اور کس کا تقویٰ اور پرہیزگاری کس درجے کی ہے اور کون اس کی رضا و خوشنودی کے لئے نیک عمل کرتا ہے ؟ اور کون دکھلاوے اور ظاہر داری کے لئے ؟ یا دنیا کے کسی اور نفع اور فائدے کے پیش نظر ؟ پس وہ اپنے اسی علم محیط و کامل کے مطابق ہر کسی کو اس کی جزا سے نوازے گا ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پس تم لوگ ہمیشہ اس سے اپنا معاملہ صاف اور صحیح رکھنے کی فکر اور کوشش کرتے رہا کرو۔ نیت کے اعتبار سے بھی اور عمل کے اعتبار سے بھی ۔ اللہ توفیق بخشے ۔ اللَّھُمَّ فَخُذْ بِنَواصِیْنَا الی مَا فِیْہِ حُبّکَ وَرِضَاکَ ۔ سو اللہ تعالیٰ اپنے متقی اور پرہیزگار بندوں کو اچھی اور پوری طرح جانتا ہے۔ اور وہ فریضہ جہاد سے پیچھے رہنے کی درخواست کبھی نہیں پیش کرتے بلکہ وہ اس میں شرکت اور اجر وثواب کی کمائی کے مشتاق و متمنی اور اس کے خواہشمند رہتے ہیں ۔ وباللہ التوفیق لتقواہ سبحانہ و تعالیٰ -
Top