Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 51
قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا١ۚ هُوَ مَوْلٰىنَا١ۚ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّنْ يُّصِيْبَنَآ : ہرگز نہ پہنچے گا ہمیں اِلَّا : مگر مَا : جو كَتَبَ : لکھ دیا اللّٰهُ : اللہ لَنَا : ہمارے لیے هُوَ : وہی مَوْلٰىنَا : ہمارا مولا وَعَلَي اللّٰهِ : اور اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : بھروسہ چاہیے الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع)
(ان احمقوں سے) کہو کہ ہمیں ہرگز نہیں پہنچاتا مگر وہ کچھ جو کہ اللہ نے ہمارے لئے لکھ رکھا ہے، وہی ہمارا کار ساز ہے، اور اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے، سب ایمانداروں کو،
109 تقدیر کے لکھے نے بہرحال ہو کر رہنا ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہو کہ ہمیں ہرگز نہیں پہنچتا مگر وہی کچھ جو کہ قدرت نے ہمارے لیے لکھ رکھا ہے کہ لکھے ہوئے نے بہرحال ہو کر رہنا ہے۔ یعنی جو لکھا ہے لوح محفوظ میں۔ اور جو وہاں لکھا ہوگا وہ بہرحال ہو کر رہے گا۔ کسی کے خوش یا ناخوش ہونے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پس تمہارا خوش ہونا دراصل تمہاری اپنی ہی حماقت کی دلیل ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ (جامع البیان، محاسن التاویل وغیرہ) ۔ کیونکہ تقدیر کے لکھے نے بہرحال ہو کر رہنا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی دخل اور اختیار نہیں۔ سو خدا نے جو کچھ ہمارے لیے لکھ رکھا ہے وہ بہرحال ہو کر رہے گا۔ وہ کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتا۔ اور اس نے جو کچھ ہمارے لیے لکھ رکھا ہے اسی میں ہماری بہتری ہے کہ وہ ہمارا مولی ہے۔ پس اس نے ہمارے لیے جو کچھ لکھ رکھا ہے اسی میں ہماری بہتری ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ سو مومن کی ہر حالت خیر ہی خیر ہے۔ اور اس کا دل ہر حال میں مطمئن ہی رہتا ہے ۔ والحمد للہ جل وعلا - 110 ایمان کا تقاضا کہ بھروسہ اللہ ہی پر ہو : سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر و تاکید کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ایمان والوں کو کہ ایمان صادق کا تقاضا یہی ہے کہ بھروسہ و اعتماد اسی وحدہ لاشریک پر کیا جائے کہ سب کچھ اسی وحدہ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ جو کچھ ہوتا ہے اسی کے اشارہ و ارشاد سے ہوتا ہے کہ وہی ہے جو اس ساری کائنات کا خالق ومالک بھی ہے اور اس میں حاکم و متصرف بھی ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ مگر افسوس کہ آج کے کلمہ گو مسلمان کا حال اس سے مختلف بلکہ اس کے برعکس ہے کہ کہیں اس کا بھروسہ و اعتماد ظاہری اور مادی اسباب و وسائل پر ہے اور کہیں کسی زندہ یا مردہ انسان پر۔ کہیں کسی جبے قبے اور بنی ٹھنی قبر پر اور کہیں کسی خود ساختہ اور من گھڑت " سرکار " پر وغیرہ وغیرہ۔ اسی لئے وہ غیر اللہ کو طرح طرح کے ناموں سے پکارتا ہے۔ ان کے نام کی نذریں مانتا، نیازیں دیتا، چڑھاوے چڑھاتا، ان پر چادریں ڈالتا، جھنڈے لگاتا، کپڑے چیتھڑے باندھتا، قبروں کو دھوتا، غسل دیتا، ان کو چومتا چاٹتا، سلامیاں دیتا اور ڈالیاں پیش کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جب کہ اللہ پاک صاف وصریح طور پر اور حصر و تاکید کے ساتھ فرماتا ہے کہ ایمان والوں کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیئے ۔ فَاِلَی اللّٰہِ الْمَشْتَکیٰ وَھُوَالْمُسْتَعَان ۔ بہرکیف یہاں پر صاف اور صریح طور پر ارشاد فرما دیا گیا کہ ایمان والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے کہ سچے ایمان و یقین کا تقاضا یہی ہے۔ ورنہ محض زبانی کلامی دعو وں کا کچھ فائدہ نہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین۔
Top