Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 57
لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا اِلَیْهِ وَ هُمْ یَجْمَحُوْنَ
لَوْ يَجِدُوْنَ : اگر وہ پائیں مَلْجَاً : پناہ کی جگہ اَوْ مَغٰرٰتٍ : اور غار (جمع) اَوْ : یا مُدَّخَلًا : گھسنے کی جگہ لَّوَلَّوْا : تو وہ پھرجائیں اِلَيْهِ : اس کی طرف وَهُمْ : اور وہ يَجْمَحُوْنَ : رسیاں تڑاتے ہیں
(اور یہ مجبور ہیں ورنہ) اگر ان کو مل جائے کوئی پناہ گاہ، یا کوئی غار، یا کوئی گھس بیٹھنے کی جگہ ہی، تو یہ اس کی طرف سرپٹ دوڑ پڑیں،3
119 منافقوں کی گھٹن اور ان کے باطن کی کیفیت کا ذکر : سو ان لوگوں کے باطن کی گھٹن کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ اگر ان کو کوئی پناہ گاہ مل جائے یا کوئی غار یا کہیں گھس بیٹھنے کی کوئی جگہ ہی میسر آجائے تو یہ سرپٹ اس کی طرف دوڑ پڑیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلامی معاشرے کے درمیان یہ لوگ کس قدر گھٹن اور تنگی کی زندگی گزارتے ہیں اور اسلام کو پھلتا پھولتا دیکھ کر ان کے دل و دماغ پر کیا گزرتی ہے اور ان کو ذہنی طور پر کس قدر کوفت و کرب میں مبتلا رہنا پڑتا ہے۔ یہ بھی قرآن حکیم کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ اس نے ان کے باطن کی کیفیت کو اس طرح واضح و آشکارا کردیا۔ اور یہ اسی ذات اقدس و اعلیٰ کی شان ہوسکتی ہے جو کہ { عَلِیْمٌ بِذَات الصَّدُوْرِ } ہے۔ سو ایمان و یقین کی دولت سے انسان کو امن و سکون کی دولت نصیب ہوتی ہے اور وہ ہر حال میں مطمئن اور پر سکون رہتا ہے۔ جبکہ ایمان و یقین کی دولت سے محرومی کے نتیجے میں انسان سکون و اطمیان سے محروم رہتا ہے اور وہ اپنے باطن میں ہر وقت ایک گھٹن اور کرب میں مبتلا ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top