Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 75
وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَئِنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو عٰهَدَ اللّٰهَ : عہد کیا اللہ سے لَئِنْ : البتہ۔ اگر اٰتٰىنَا : ہمیں دے وہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل لَنَصَّدَّقَنَّ : ضرور صدقہ دیں ہم وَلَنَكُوْنَنَّ : اور ہم ضرور ہوجائیں گے مِنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : صالح (جمع)
اور ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جنہوں نے عہد کیا اللہ سے کہ اگر اس نے نواز دیا ہم کو اپنے فضل سے، تو ہم خوب خیرات کریں گے، اور بڑے نیک بن جائیں گے،
155 ایک سبق آموز اور عبرتناک قصے کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے شخص نے اللہ سے عہد کیا کہ اگر اللہ نے اپنے فضل سے ہمیں نواز دیا تو ہم خوب خیرات کریں گے اور بڑے نیک بن جائیں گے اپنے مال کو نیک کاموں میں صرف کر کے۔ کہ اس طرح ہم خوب ثواب کمائیں گے۔ روایات کے مطابق یہ آیات کریمہ ثعلبہ بن حاطب انصاری کے بارے میں نازل ہوئیں۔ عام روایات میں اسی کا ذکر ہے۔ جبکہ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اس سے مراد وہ انصاری صحابی نہیں بلکہ یہ اسی نام کا کوئی اور شخص تھا (حاشیہ صفوۃ التفاسیر وغیرہ) ۔ جو بھی ہو ثعلبہ نامی اس شخص نے آنحضرت ۔ ﷺ ۔ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اللہ کے رسول ! میرے حق میں اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بہت سا مال دے " اُدْعُ اللّٰہَ اَنْ یَّرْزُقَنِیْ مَالاً " تو اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فہمائش کرتے ہوئے اس سے فرمایا کہ ثعلبہ تم پر افسوس ہے۔ وہ تھوڑا مال جس پر تم اللہ کا شکر ادا کرسکو اس کثیر مال سے کہیں بہتر ہے جس کا تم شکرنہ ادا کرسکو " وَیْحَکَ یَا ثَعْلَبۃَ قَلِیْلٌ تُؤَدِّیْ شُکْرَہٗ خَیْرٌ مِّنْ کَثِیْرٍ لَا تْطِیْقُہٗ " مگر اس کے باوجود اس شخص نے نہ مانا اور وہ پھر اپنی وہی طلب و درخواست دوہراتا گیا۔ تب آنحضرت ﷺ نے اس کے لئے یہ دعاء فرما دی۔ اس کے بعد اس شخص کی بکریاں بڑھنا اور پھیلنا شروع ہوگئیں اور ایسے جیسے کیڑے بڑھتے اور پھیلتے ہیں یہاں تک کہ اس کے لئے مدینے میں جگہ تنگ ہوگئی۔ تو اس نے مدینے سے باہر جا کر ایک وادی میں ڈیرہ ڈال دیا اور وہیں رہنے لگا۔ صرف جمعہ اور جماعت کے لئے مدینہ آتا یہاں تک کہ وہ جگہ بھی اس کے لئے تنگ ہوگئی تو وہ شخص اس سے بھی آگے نکل گیا اور صرف جمعہ کے لئے مدینے آتا اور بس۔ اور یہاں تک کہ اس سے جمعہ کی حاضری بھی چھوٹ گئی ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور پھر زکوٰۃ فرض ہونے پر جب اس سے زکوٰۃ کا مطالبہ کیا گیا تو اس نے یہ کہہ کر زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا کہ " یہ تو جزیہ ہے " تو اس پر یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں۔ جب اس شخص کو اس کا پتہ چلا وہ چیختا چلاتا زکوٰۃ لے کرحضور ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو آپ ﷺ نے اس کے لینے سے انکار کردیا۔ یہاں تک کہ آنحضرت ۔ ﷺ ۔ نے انتقال فرما لیا۔ تو آپ ﷺ کے بعد یہ شخص اپنی زکوٰۃ لے کر حضرت صدیق اکبر ؓ اور پھر حضرت عمر فاروق ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان دونوں میں سے بھی کسی نے اسے قبول نہ کیا اور فرمایا کہ جس چیز کوحضور ﷺ نے قبول نہیں فرمایا اس کو ہم ایسے کیسے لے سکتے ہیں جبکہ اللہ کے رسول نے اس کے لینے سے صاف انکار فرما دیا ؟ یہاں تک کہ حضرت عثمان غنی ؓ کے دور خلافت میں یہ شخص مر کر اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ سو یہ ہے انجام اس مال کا جس کے لئے دنیا پرست انسان جیتا اور مرتا ہے اور دنیائے دوں کی اسی متاع قلیل کو سب کچھ سمجھ کر وہ عمر رواں کی اپنی پونجی اور فرصت محدود کو اسی کے لئے تج دیتا ہے۔ اور اس طرح وہ اپنی آخرت اور اس کی حقیقی اور ابدی زندگی اور اس کے تقاضوں کو بھول کر دارین کی سعادت و سرخروائی سے محروم ہوجاتا ہے اور اس طرح خسران مبین میں مبتلا ہو کر رہتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کے زیغ و ضلال اور انحراف سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ سو دنیا کے مال و دولت کی بنا پر مست و مگن اور مغرور ہو کر اپنے مآل و انجام کو بھول جانا بہت بڑے خسارے کا سودا ہے ۔ والعیاذ باللہ -
Top