Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 80
اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ١ؕ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠   ۧ
اِسْتَغْفِرْ : تو بخشش مانگ لَهُمْ : ان کے لیے اَوْ : یا لَا تَسْتَغْفِرْ : بخشش نہ مانگ لَهُمْ : ان کے لیے اِنْ : اگر تَسْتَغْفِرْ : آپ بخشش مانگیں لَهُمْ : ان کے لیے سَبْعِيْنَ : ستر مَرَّةً : بار فَلَنْ يَّغْفِرَ : تو ہرگز نہ بخشے گا اللّٰهُ : اللہ لَهُمْ : ان کو ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : کیونکہ وہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا بِاللّٰهِ : اللہ سے وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان (جمع)
آپ (اے پیغمبر ! ) ان کے لئے بخشش کی دعا کریں یا نہ کریں، ان کے لئے (ایک برابر ہے کہ) آپ اگر ان کے لئے ستر مرتبہ بھی بخشش کی دعا کریں گے تو بھی اللہ نے ان کو ہرگز نہیں بخشنا، یہ اس لئے کہ انہوں نے (جان بوجھ کر) کفر کیا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ، اور اللہ ہدایت (کی دولت) سے نہیں نوازتا ایسے بدکاروں کو،2
160 پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ آپ ان کے لیے (اے پیغمبر) بخشش کی دعا کریں یا نہ کریں ان کے لیے ایک برابر ہے کہ اللہ نے ان کی بخشش ہرگز نہیں کرنی۔ سو { اِستَغْفِرْ } کا صیغہ یہاں پر امر کے لئے نہیں خبر کے معنیٰ میں ہے۔ (صفوۃ البیان) ۔ یعنی ان بدبختوں کا کفر و نفاق اتنا سخت اور اس قدر سنگین ہوچکا ہے کہ آپ ﷺ کا استغفار بھی اے پیغمبر ان کے لئے مفید نہیں ہوسکتا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتا جیسا کہ اہل بدعت وغیرہ کا کہنا ہے کیونکہ جو مختار کل ہوتا ہے وہ استغفار نہیں کیا کرتا کہ استغفار اور اختیار کلی کے درمیان منافات ہے۔ اور پھر اس کے بعد مزید یہ کہ اس کی بھی تصریح فرما دی گئی کہ آپ ان کیلئے بخشش کی دعا مانگیں یا نہ مانگیں ان کی بخشش بہرحال نہیں ہوسکتی کہ کفر و نفاق نے انکو بری طرح جکڑ لیا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو ان اشقیاء کے لیے استغفار سے روک دیا اور اس شدت اور قطعیت کے ساتھ کہ اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے تب بھی اللہ ان کی بخشش نہیں فرمائے گا۔ اور ستر کا عدد جیسا کہ محاورے کی زبان میں بولا جاتا ہے یہاں پر تحدید اور عدد کے لیے نہیں بلکہ تکثیر کے لیے ہے جیسا کہ عربی زبان میں معروف تھا اور ہے ۔ اور خود ہماری زبان و محاورہ میں بھی پایا جاتا ہے۔ اور ہر زندہ زبان میں پایا جاتا ہے۔ یعنی جتنا بھی استغفار کرو گے ان کی بخشش نہیں کریں گے۔ سو معاملہ سب کا سب اللہ تعالیٰ ہے کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے اور مختار کل وہی ہے اور اس کی کسی بھی صفت میں کوئی شریک نہیں ہوسکتا ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 161 اختیار کلی وغیرہ کے بدعی عقائد کی تردید و تغلیط : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں کے تو بھی اللہ نے ان کو ہرگز نہیں بخشنا اور ستر کا کلمہ جیسا کہ ابھی اوپر بھی گزرا یہاں پر تعداد اور تحدید کے لئے نہیں بلکہ تکثیر کے لئے ہے۔ اور سات، ستر اور سو وغیرہ کے بعض اعداد کا تکثیر کے لئے استعمال ہونا کلام عرب میں شائع و ذائع ہے۔ اور خود ہمارے معاشرے اور محاورے میں بھی ایسا پایا جاتا ہے۔ پس مطلب یہ ہوا کہ آپ ﷺ اے پیغمبر ! ان کے لئے جتنا بھی استغفار کریں وہ قبول ہونے والا نہیں اور ان لوگوں کی بخشش نہیں ہونے کی۔ (جامع البیان، محاسن التاویل اور کشاف وغیرہ) کہ ان کا کفر بہت سخت اور سنگین حد تک پہنچ چکا ہے۔ اور ان لوگوں نے اپنے سوء اختیار اور خبث باطن کی بناء پر اپنی صلاحیتوں کو ضائع کردیا ہے۔ روایات میں وارد ہے کہ جب { سَخِرَ اللّٰہُ مِنْھُمْ } کا پچھلی آیت کریمہ والا ارشاد نازل ہوا تو ان منافقین نے آنحضرت ﷺ سے اپنے لئے استغفار کی درخواست کی جس کو آپ ﷺ نے اپنی رحمت و شفقت کی بناء پر قبول فرما لیا۔ مگر جونہی آپ ﷺ نے یہ ارادہ فرمایا کہ ان کے لئے استغفار کریں تو اس آیت کریمہ کے نزول سے آپ ﷺ کو اس سے منع فرما دیا گیا۔ (روح، الکبیر، المنار وغیرہ) ۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء کرام ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ نہ مختار کل ہوتے ہیں نہ عالم غیب، جس طرح کہ اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے۔ اور جب حضرت امام الانبیائ۔ علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام ۔ کی بھی یہ شان نہیں تو پھر اور کس کی ہوسکتی ہے ؟ سو اس سے اہل بدعت کے اس طرح کے تمام خود ساختہ اور شرکیہ عقائد کی جڑ کٹ جاتی ہے ۔ والحمد للہ ۔ بہرکیف ان کے لیے بخشش کی دعاء سے منع فرما دیا گیا اور { ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَفَرُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہ } سے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی گئی کہ " انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا " اور بخشش ان کے لیے ہوتی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور صدق دل سے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور جبکہ یہ اس سے محروم ہیں تو پھر ان کی بخشش ہو تو کس طرح ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے زیغ وضلال سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔ 162 فاسقوں کو ہدایت کی دولت نہیں مل سکتی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ہدایت کی دولت سے نہیں نوازتا ایسے بدکاروں کو کہ ایسے لوگ ہدایت چاہتے ہی نہیں۔ اور ہدایت کی دولت جو کہ اللہ پاک کی طرف سے ملنے والی سب سے بڑی دولت ہے اور جو اس واہب مطلق کی عطا فرمودہ نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے وہ ملتی اگرچہ مفت اور بالکل مفت ہے لیکن اس کے لئے اولین شرط اور اصل اساس طلب صادق ہے جس سے یہ لوگ محروم ہیں۔ اور ایسے محروم کہ اس محرومی کا ان کو احساس بھی نہیں۔ جس کا ایک مظہر اور شاخسانہ یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کے رسول کی معیت میں سفر جہاد کے لئے نکلنے کی عظیم الشان سعادت سے محرومی پر بھی بجائے رنج و افسوس کرنے کے الٹا خوش ہوتے اور بغلیں بجاتے ہیں۔ اور بجائے اس کے کہ یہ اپنے کئے پر نادم ہوں اور توبہ و استغفار کے ذریعے صدق دل سے اپنے خالق ومالک کی طرف رجوع ہوں یہ الٹا اپنے کفر و باطل پر اڑے ہوئے ہیں۔ تو ایسوں کو نور ہدایت کی دولت سے سرفرازی کس طرح نصیب ہوسکتی ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو انسان کے بناؤ بگاڑ، صحت و فساد اور اس کی صلاح و اصلاح کا اصل اور بنیادی تعلق جیسا کہ پہلے بھی اس بارے گزر چکا ہے اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقِ لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ وہو الہادی الی سواء السبیل -
Top