Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 92
وَّ لَا عَلَى الَّذِیْنَ اِذَا مَاۤ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ١۪ تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَؕ
وَّلَا : اور نہ عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اِذَا : جب مَآ اَتَوْكَ : جب آپکے پاس آئے لِتَحْمِلَهُمْ : تاکہ آپ انہیں سواری دیں قُلْتَ : آپ نے کہا لَآ اَجِدُ : میں نہیں پاتا مَآ اَحْمِلُكُمْ : تمہیں سوار کروں میں عَلَيْهِ : اس پر تَوَلَّوْا : وہ لوٹے وَّاَعْيُنُهُمْ : اور ان کی آنکھیں تَفِيْضُ : بہہ رہی ہیں مِنَ : سے الدَّمْعِ : آنسو (جمع) حَزَنًا : غم سے اَلَّا يَجِدُوْا : کہ وہ نہیں پاتے مَا : جو يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کریں
اور نہ ہی ان لوگوں پر (کوئی الزام ہے) جو آپ کے پاس آئے (اے پیغمبر ! ) تاکہ آپ انہیں کوئی سواری دے دیں، مگر آپ نے انہیں جواب دیا کہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس پر میں تمہیں سوار کرسکوں، تو یہ لوگ واپس لوٹ گئے اس حال میں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، اس غم میں کہ وہ کچھ نہیں پاتے خرچ کرنے کو (اللہ کی راہ میں)3
176 صدق ایمان کی ایک نشانی، نیکی سے محرومی پر رو پڑنا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے سچے اور مخلص لوگ جہاد کے لیے سواری نہ ملنے کے نتیجے میں غم اور افسوس کے باعث روتے ہوئے واپس لوٹتے ہیں۔ اور ایسے کہ گویا ان کی آنکھیں حوض ہیں جو کناروں سے بہ پڑے ہیں۔ اس لئے کہ یہاں پر " تَدْمَعُ " نہیں بلکہ { تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ } فرمایا گیا گیا ہے۔ چناچہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ایسے حضرات کا لقب ہی " بَکَّائِیْنَ " " بہت زیادہ رونے والے " پڑگیا تھا۔ (المراغی وغیرہ) ۔ اور یہی حال ہوتا ہے سچے ایمان والوں کا کہ نیکی اور بھلائی سے محرومی پر وہ روتے اور افسوس کرتے ہیں جبکہ نفاق کے روگی اس کے برعکس اس کو اپنی چالاکی سمجھتے اور اس پر خوش ہوتے ہیں، جیسا کہ ابھی کچھ ہی اوپر گزرا ـ ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو شرکت جہاد سے محرومی پر رونا انکے صدق ایمان کی نشانی ہے کہ مومن صادق نیکی کا حریص ہوتا ہے۔ اس لیے نیکی سے محروم ہونے پر رو پڑنا ایک طبعی امر ہے۔ اور یہ رونا ایسے لوگوں کے صدق و اخلاص کی نشانی ہے۔
Top