بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Madarik-ut-Tanzil - Yunus : 1
الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ
الٓرٰ : الف لام را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب الْحَكِيْمِ : حکمت والی
الرا، یہ بڑی دانائی کی کتاب کی آیتیں ہیں۔
آپ کی نبوت قابل تعجب کیوں ہے ؟ 1، 2: الٓرٰ اور ان کی مثل ایمالہ ہے حمزہ، علی اور ابوعمرو رحہم اللہ کے نزدیک۔ یہ حروف تحدّی کیلئے شروع سورة میں لائے گئے ہیں۔ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ (جو اس کتاب کی آیتیں ہیں) تلک سے اشارہ ان آیات کی طرف ہے جو سورت میں پائی جاتی ہیں الکتاب سے یہ سورة مراد ہے۔ الْحَکِیْمِ (جو پر حکمت ہے) نمبر 1۔ حکمتوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے کتاب کی صفت حکیم لائی گئی ہے۔ نمبر 2۔ کذب اور من گھڑت ہونے سے محفوظ ہے۔ اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا (کیا ان لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا) اس میں ہمزہ استفہام انکاری تعجبی ہے۔ لوگوں کے اس کے متعلق تعجب کرنے پر انکار و تعجب کا اظہار کیا گیا ہے۔ نحو : اَنْ اَوْحَیْنَآ (کہ ہم نے وحی بھیج دی) یہ کان کا اسم اور عجبًا اسکی خبر ہے اور للناس کا لام محذوف کے متعلق ہے جو کہ عجبًا کی صفت ہے جب وہ مقدم ہے تو حال بن گیا۔ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِالنَّاسَ (انہی میں سے ایک شخص کے پاس کہ سب آدمیوں کو ڈرائے) ۔ نمبر 1۔ انؔ سے پہلے با ؔ مقدر ہے بان انذر۔ نمبر 2۔ ان مفسرہ ہے کیونکہ ایحاء میں قول کا معنی پایا جاتا ہے۔ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنَّ لَھُمْ (اور ایمان والوں کو خوشخبری سنائے کہ ان کو) اَنَّ سے پہلے بامحذوف ہے بانَّ لھم۔ للناس میں لام کا معنی یہ ہے کہ انہوں نے اس بات کو ایک عجوبہ قرار دیا جس پر وہ تعجب کرتے تھے کہ ایک انسان کی طرف وحی آئی اور وہ انسان بھی ایسا جو ان کے متوسط طبقے میں سے ہے نہ کہ ان کے مالدار سرداروں میں سے۔ اسی لئے وہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو رسالت کے لئے ابوطالب کے یتیم بھتیجے کے سواء اور کوئی نہ ملا۔ اور وہ آگ سے ڈراتا اور جنت کی خوشخبری سناتا ہے۔ حالانکہ ان باتوں میں سے کوئی بھی تعجب انگیز نہیں ہے کیونکہ امم کی طرف مبعوث رسل انہی جیسے انسان ہوتے ہیں اور یتیم اور بےمایہ کا بھیجنا بھی تعجب خیز نہیں۔ کیونکہ نبوت کیلئے وہ منتخب کیا جاتا ہے۔ جو اسباب نبوت کا جامع ہو اور مالداری اور دنیا میں مرتبہ و درجہ والا ہونا یہ اسباب نبوت سے قطعًا نہیں ہے اور جزاء اور سزا کیلئے دوبارہ اٹھانا یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت عظمیٰ کا تقاضہ ہے پس یہ کیونکر قابل تعجب ہوا ؟ بلکہ تعجب انگیز اور قابل انکار تو صحیح عقل و فکر میں جزاء کا انکار ہے۔
Top