Madarik-ut-Tanzil - Yunus : 51
اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِهٖ١ؕ آٰلْئٰنَ وَ قَدْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ
اَثُمَّ : کیا پھر اِذَا : جب مَا وَقَعَ : واقع ہوگا اٰمَنْتُمْ : تم ایمان لاؤ گے بِهٖ : اس پر آٰلْئٰنَ : اب وَقَدْ كُنْتُمْ : اور البتہ تم تھے بِهٖ : اس کی تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی مچاتے تھے
کیا جب وہ آ واقع ہوگا (تب اس پر ایمان لاؤ گے ؟ ) (اس وقت کہا جائیگا کہ) اور اب (ایمان لائے) اسی کے لئے تو تم جلدی مچایا کرتے تھے۔
عذاب کے وقت حال : 51: اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ (کیا پھر جب وہ واقع ہوجائیگا) یعنی عذاب اٰمَنْتُمْ بِہٖ ( کیا تم اس وقت ایمان لائو گے) یہ جواب شرط ہے اور ماذایستعجل منہ المجرمون جملہ معترضہ ہے۔ مطلب یہ ہوگا اگر تمہارے پاس اسکا عذاب آجائے تو تم اسپر ایمان لائو گے اس عذاب کے واقع ہونے کے بعد جبکہ ایسے وقت کا ایمان مفید نہ ہوگا۔ نحو : حرف استفہام کو ثم پر لانا اسی طرح ہے جیسا کہ اس کو واو اور فا ؔ پر داخل کیا جائے۔ جیسا (اعراف : 97) میں افامن اہل القری، 98 میں اوامن اہل القری۔ آلْئٰنَ (کیا اب ایمان لاتے ہو) اس کو قول کا مقولہ مان کر گویا ان کو کہا جائے گا جبکہ وہ عذاب آجانے کے بعد ایمان لائیں گے کیا اب تم ایمان لاتے ہو۔ وَقَدْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ (حالانکہ تم تو اس کو جلدی مانگا کرتے تھے) یعنی عذاب کو تکذیب اور استہزاء کے طور پر۔ آلان میں لام کے بعد والے ہمزہ کو حذف کردیا اور اسکی حرکت لام کو دیدی۔ نافع کے نزدیک اسی طرح ہے۔
Top