Madarik-ut-Tanzil - Yunus : 88
وَ قَالَ مُوْسٰى رَبَّنَاۤ اِنَّكَ اٰتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاَهٗ زِیْنَةً وَّ اَمْوَالًا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۙ رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِكَ١ۚ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰۤى اَمْوَالِهِمْ وَ اشْدُدْ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ
وَقَالَ : اور کہا مُوْسٰى : موسیٰ رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو اٰتَيْتَ : تونے دیا فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَاَهٗ : اور اسکے سردار زِينَةً : زینت وَّاَمْوَالًا : اور مال (جمع) فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی رَبَّنَا : اے ہمارے رب لِيُضِلُّوْا : کہ وہ گمراہ کریں عَنْ : سے سَبِيْلِكَ : تیرا راستہ رَبَّنَا : اے ہمارے رب اطْمِسْ : تو مٹا دے عَلٰٓي : پر اَمْوَالِهِمْ : ان کے مال وَاشْدُدْ : اور مہر لگا دے عَلٰي قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں پر فَلَا يُؤْمِنُوْا : کہ وہ نہ ایمان لائیں حَتّٰى : یہانتک کہ يَرَوُا : وہ دیکھ لیں الْعَذَابَ : عذاب الْاَلِيْمَ : دردناک
اور موسیٰ نے کہا اے ہمارے پروردگار ! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں (بہت سا) ساز وبرگ اور مال وزر دے رکھا ہے۔ اے پروردگار ان کا مآل یہ ہے کہ تیرے راستے سے گمراہ کردیں۔ اے پروردگار ! ان کے مال کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک عذاب الیم نہ دیکھ لیں۔
88: وَقَالَ مُوْسٰی رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاَہٗ زِیْنَۃً (اور موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے ہمارے پروردگار ! بیشک آپ 6 نے فرعون اور اس کے سرداروں کو زینت دی ہے) زینت ہر ایسی چیز کو کہتے ہیں جس سے انسان اپنے آپ کو مزین کرتا ہے جیسے لباس زیورات، قالین، اثاث البیت وغیرہ وَّاَمْوَالًا (اور مال) یعنی نقدی، نعمتیں، زمینیں فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ (دنیا کی زندگی میں اے ہمارے پروردگار جس کا نتیجہ یہ کہ وہ لوگوں کو تیرے راستہ سے ہٹا رہے ہیں) تاکہ وہ لوگوں کو آپ کی اطاعت سے برگشتہ کریں۔ قراءت : کوفی کے نزدیک الدنیاپرو قف نہیں کیونکہ لیضلّوا، اتیت کے متعلق ہے۔ ربنا کو دوسری مرتبہ تضرع میں الحاح و اصرار کیلئے لائے۔ شیخ ابومنصور (رح) : فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے جانا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کریں گے تو ان کو وہ سب کچھ دیا تاکہ وہ گمراہی میں زور لگالیں اور یہ اسی طرح ہے جیسے آل عمران 178 میں فرمایا انما نملی لھم لیزدادوا اثما۔ پس یہ آیت معتزلہ کے خلاف قوی حجت ہے۔ دعائے موسیٰ d: رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓی اَمْوَالِھِمْ ( اے ہمارے پروردگار ان کے اموال کو مٹا دے) یعنی اموال کو ہلاک و تباہ کر دے اور اس کے آثار کو زائل کر دے۔ کیونکہ یہ تیری نعمتوں سے تیری معصیت پر معاونت حاصل کر رہے ہیں۔ الطمسؔ کا معنی مٹانا اور ہلاک کرنا ہے۔ ایک قول یہ ہے نمبر 1۔ ان کے دراہم و دنانیر پر نقش نگار تو وہی تھا مگر وہ پتھروں میں بدل گئے۔ نمبر 2۔ دوسراقول تمام اموال اسی طرح بن گئے۔ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ (اور ان کے قلوب کو سخت کردے) ان کے دلوں پر مہر لگا دے اور ان کو سخت کردے۔ فَلَایُؤْمِنُوْا (پس وہ ایمان نہ لائیں) یہ اشدد کا جواب ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا وہ ایمان نہ لائیں گے حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ (یہاں تک کہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں) یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں گے اور یہ اسی طرح ہوا چناچہ فرعونی ڈوبنے تک ایمان نہیں لائے۔ اور ایسے وقت اگر وہ ایمان لاتے بھی تو قابل قبول نہ تھا کیونکہ یہ ایمان یاس تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے متعلق یہ بددعا اس وقت فرمائی جب ان کے ایمان سے مایوس ہوگئے اور وحی سے ان کو معلوم ہوگیا کہ یہ ایمان نہ لائیں گے وحی سے علم کے بغیر تو ان کو یہ دعا کرنے کا حق نہیں کہ وہ ایمان نہ لائیں گے کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی طرف دعوت ایمان دیکر ہی تو مبعوث کیا گیا تھا۔ نکتہ : یہ آیت دلالت کر رہی ہے کہ کسی کیلئے کفر پر موت کی بددعا کفر نہیں ہے۔
Top