Madarik-ut-Tanzil - Yunus : 95
وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَتَكُوْنَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
وَلَا تَكُوْنَنَّ : اور نہ ہونا مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِ : آیتوں کو اللّٰهِ : اللہ فَتَكُوْنَ : پھر ہوجائے مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے
اور نہ ان لوگوں میں ہونا جو خدا کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں نہیں تو نقصان اٹھاؤ گے۔
آیات کی تکذیب مت کرو : 95: وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَتَکُوْنَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ( اور ہرگز نہ ہو ان لوگوں میں سے جنہوں نے آیات اللہ کو جھٹلایا پس ہوجائو گے نقصان کرنے والوں میں سے) پس ثابت قدم رہ اور اپنے سے شک کی نفی میں مداوت مت کرو اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کی نفی میں ہمیشگی اختیار کرو۔ یا نمبر 2۔ اس انداز سے آپ کو جوش دلانا اور بھڑکا نا مقصود ہو جیسا کہ سورة القصص کی آیت 86 فلا تکونن ظہیرًا للکافرین اور القصص آیت 87 ولا یصدنک عن آیات اللہ بعداذانزلت الیک۔ اور ثابت قدمی اور عصمت میں اضافہ کیلئے فرمایا گیا اسی لئے آپ (علیہ السلام) نے اس آیت کے نزول کے وقت فرمایا۔ لا اشک ولا اسأل، بل اشھد انہ الحق۔ (ابن جریر فی تفسیرہ) میں نہ شک کرتا ہوں اور نہ ہی کسی سے پوچھتا ہوں۔ بلکہ میں گواہی دیتا ہوں کہ برحق ہے۔ یا نمبر 3۔ خطاب آنحضرت ﷺ کو فرمایا مگر مراد آپ کی امت ہے تقدیر اس طرح ہوگی ان کنتم فی شک مما انزلنا الیکم (اگر تمہیں شک ہے اس میں جو ہم نے تمہاری طرف اتارا ہے) یہ سورت النساء 174 کی طرح ہے وانزلنا الیکم نورًا مبینًا نمبر 4۔ خطاب ہر سامع کو ہے اور اس کے متعلق شک جائز و درست ہے جیسے عرب کہتے ہیں۔ اذا اخوک فھن۔ نمبر 5۔ ان نافیہ ہے یعنی آپ شک میں نہیں کہ سوال کریں۔ مطلب یہ ہے کہ ہم آپ کو سوال کا اسلئے حکم نہیں دے رہے کہ آپ شک کرنے والے ہیں۔ لیکن سوال کا حکم اسلئے ہے تاکہ آپ کے یقین میں اضافہ ہو جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو احیاء موتی کا معائنہ کر کے اطمینان ہوا۔ سوال۔ اننافیہ تو اس مقام پر آتا ہے جہاں اس کے بعد اِلَّا ہو جیسا کہ سورت الملک آیت 20 میں ان الکافرون الافی غرور جواب : یہ لازم نہیں قرآن مجید سورة فاطر آیت 41 میں ہے ان امسکھما من احد من بعدہٖ یہاں ان نافیہ ہے اور اس کے بعد اِلَّا نہیں ہے۔
Top