Madarik-ut-Tanzil - Hud : 41
وَ قَالَ ارْكَبُوْا فِیْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖؔىهَا وَ مُرْسٰىهَا١ؕ اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَقَالَ : اور اس نے کہا ارْكَبُوْا : سوار ہوجاؤ فِيْهَا : اس میں بِسْمِ اللّٰهِ : اللہ کے نام سے مَجْرٖ۩ىهَا : اس کا چلنا وَمُرْسٰىهَا : اور اس کا ٹھہرنا اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب لَغَفُوْرٌ : البتہ بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
(نوح نے) کہا کہ خدا کا نام لیکر (کہ اسی کے ہاتھ میں) اس کا چلنا اور ٹھہرنا (ہے) اس میں سوار ہوجاؤ۔ بیشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔
کشتی میں سواری کی دعا : 41: وَقَالَ ارْکَبُوْا فِیْھَا بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرٖھَا وَمُرْسٰھَا (کہا تم اس پر سوار ہوجائو اللہ تعالیٰ کے نام سے اس کا چلنا اور رکنا ہے) بسم اللہ، ارکبوا سے متصل ہے۔ وائو سے حال ہے۔ یعنی تم اس میں سوار ہوجائو اس حال میں کہ اللہ تعالیٰ کا نام لینے والے ہو۔ یا اس حال میں کہ اس کے چلانے اور ٹھہرانے کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لینے والے ہو۔ اس وجہ سے کہ المجری، المرسٰی اسماء ظروف ہیں اور وقت کا معنی دیتے ہیں یا اس لئے کہ یہ دونوں مصدر میمی ہیں جیسا اجراء وارساء اور ان کا مضاف وقت کا لفظ حذف کردیا جیساکہتے ہیں : خفوق النجم اے وقت خفوق النجم۔ یہ بھی درست ہے کہ بسم اللّٰہ مجرٖھا ومرسٰہابذات خودجملہ ہو ماقبل سے متعلق نہ ہو بلکہ مبتداء خبر ہو۔ مطلب یہ ہے کہ نوح (علیہ السلام) نے ان کو سوار ہونے کا حکم دیا پھر ان کو بتلایا کہ ان کا چلنا اور رکنا اللہ تعالیٰ کا نام لینے سے ہے۔ ای بسم اللہ اجراء ھا وارساؤھا چناچہ جب کشتی چلاتے تو کہتے باسم اللہ کشتی چل پڑتی اور کھڑا کرنا چاہتے تو باسم اللہ کہتے کشتی لنگر انداز ہوجاتی۔ قراءت : مجرٖھَامیم مفتوح اور راء مکسور ہے یہ جرٰی سے ہے یا مصد رہے یا وقت محذوف ہے یہ حمزہ، علی، حفص نے پڑھا ہے۔ اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے) ان کے لئے جو مخلصانہ ایمان لانے والے ہیں۔
Top