Madarik-ut-Tanzil - Hud : 66
فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا صٰلِحًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ مِنْ خِزْیِ یَوْمِئِذٍ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَ : آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم نَجَّيْنَا : ہم نے بچالیا صٰلِحًا : صالح وَّالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَهٗ : اس کے ساتھ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا : اپنی رحمت سے وَ : اور مِنْ خِزْيِ : رسوائی سے يَوْمِئِذٍ : اس دن کی اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب هُوَ : وہ الْقَوِيُّ : قوی الْعَزِيْزُ : غالب
جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے صالح کو اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے ان کو اپنی مہربانی سے بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے (محفوظ رکھا) بیشک تمہارا پروردگار طاقتور اور زبردست ہے۔
66: فَلَمَّا جَآئَ اَمْرُنَا (جب ہمارا حکم آیا) عذاب والا یا ہمارا عذاب آیا نَجَّیْنَا صٰلِحًا وَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا (ہم نے بچایا صالح (علیہ السلام) اور ان لوگوں کو جو ان پر ایمان لائے اپنی مہربانی سے) شیخ (رح) نے فرمایا یہ آیت دلالت کر رہی ہے کہ جن کو نجات ملی وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ملی نہ کہ اپنے عمل سے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لا یدخل احد الجنۃ الا برحمۃ اللّٰہ۔ کوئی آدمی جنت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر داخل نہ ہوگا۔ وَمِنْ خِزْیِ یَوْمِئِذٍ (اور اس دن کی رسوائی سے) اس رسوائی کی نسبت یوم کی طرف کی اور یوم اضافت سے مجرور ہے) قراءت : مدنی و علی نے یوم کو فتحہ سے پڑھا ہے۔ کیونکہ یہ اذ کی طرف مضاف ہے اور وہ مبنی ہے ظرف زمان کی اضافت جب اسمائے مبہمہ کی طرف اور افعال ماضیہ کی طرف کردی جائے تو مبنی بن جاتے ہیں اور مضاف الیہ سے بناء حاصل کرلیتے ہیں۔ جیسا نابغہ کا شعر، علی حین عاتبت المشیب علی الصبا وائو عاطفہ ہے اور تقدیر عبارت یہ ہے ونجیناہ من خزی یومئذ یعنی ذلت و رسوائی سے بچالیا اور اس سے بڑی رسوائی اور کیا ہوگی کہ غضب الٰہی کا شکار بن جائے اور انتقام خداوندی کا نشانہ بنے۔ یَوْمِئِذٍ سے قیامت کا دن بھی مراد ہوسکتا ہے جیسا کہ عذاب غلیظ کی تفسیر عذاب آخرت سے کی گئی اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ الْقَوِیُّ (بیشک آپ کا رب ہی طاقت ور ہے) اپنے اولیاء کو نجات دینے کی قدرت رکھتا ہے۔ الْعَزِیْزُ (زبردست ہے) اپنے دشمنوں کو ہلاک کرنے میں غلبہ پانے والا ہے۔
Top