Madarik-ut-Tanzil - Al-Hijr : 4
وَ مَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍ اِلَّا وَ لَهَا كِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ
وَمَآ : اور نہیں اَهْلَكْنَا : ہم نے ہلاک کیا مِنْ : کسی قَرْيَةٍ : بستی اِلَّا : مگر وَلَهَا : اس کے لیے كِتَابٌ : ایک لکھا ہوا مَّعْلُوْمٌ : مقررہ وقت
اور ہم نے کوئی بستی ہلاک نہیں کی مگر اس کا وقت (مرقوم و) معین تھا۔
ہر ایک کی ہلاکت کا وقت ہے : 4: وَمَآ اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا وَلَھَا کِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ (اور ہم نے جتنی بستیاں ہلاک کی ہیں ان کے لئے ایک معین وقت تحریر تھا) سوال : وَلَہَاکِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ یہ جملہ قریہ کی صفت ہے اور قیاس کا تقاضا ہے کہ ان کے درمیان وائو نہ لائی جائے۔ جیسا کہ اس آیت میں وَمَا اَہْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ اِلَّالَھَا مُنْذِرُوْنَ ] الشعراء : 208[ جواب : یہ واؤ درمیان میں اسلئے لائی جاتی ہے تاکہ موصوف صفت کا الصاق پختہ ہوجائے۔ کیونکہ صفت تو موصوف کے ساتھ بغیر وائو کے ملی ہوئی ہوتی ہے وائو لاکر اس الصاق کی تاکید کردی گئی۔ نمبر 2۔ بہتر وجہ یہ ہے کہ یہ جملہ قریۃؔ سے حال ہے کیونکہ وہ موصوف کے قائم مقام ہے۔ گویا تقدیر عبارت اس طرح ہے : وما اھلکنا قریۃ من القرٰی یہ صفت نہیں ہے۔ کتاب معلوم ؔ جانی اور معلوم شدہ لکھت و تحریر۔ اور اس سے مراد وہ وقت مقررہ ہے جو لوح محفوظ میں لکھا گیا ہے اور اس کو واضح کردیا جیسا کہ اگلی آیت میں۔
Top