Madarik-ut-Tanzil - Al-Hijr : 87
وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ
وَلَقَدْ : اور تحقیق اٰتَيْنٰكَ : ہم نے تمہیں دیں سَبْعًا : سات مِّنَ : سے الْمَثَانِيْ : بار بار دہرائی جانیوالی وَالْقُرْاٰنَ : اور قرآن الْعَظِيْمَ : عظمت والا
اور ہم نے تم کو سات (آیتیں) جو (نماز میں) دوہرا کر پڑھی جاتی ہیں (یعنی سورة الحمد) اور عظمت والا قرآن عطا فرمایا ہے۔
سورة فاتحہ کی عظمت : 87: وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا (بلاشبہ ہم نے آپ کو سات دیں) یعنی سات آیات وہ سورة فاتحہ ہے۔ نمبر 2۔ سات بڑی سورتیں سبع طوال۔ ساتویں میں اختلاف ہے نمبر 1۔ انفال وبراء ت۔ کیونکہ انکاحکم ایک سورت والا ہے اس لئے کہ بسم اللہ درمیان میں نہیں۔ نمبر 2۔ سورة یونس نمبر 3۔ قرآن کے سات حصے مِّنَ الْمَثَانِیْ (مثانی میں سے) یہ تثنیہ سے ہے اور معنی بار بار دھرانا ہے۔ کیونکہ فاتحہ نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہے۔ نمبر 2۔ الثناء سے ہے کیونکہ فاتحہ اللہ تعالیٰ کی ثناء پر مشتمل ہے۔ اس کا واحد مثناۃ ہے یا مثنیۃ ہے۔ یہ آیت کی صفت ہے باقی سورة یا سات اجزاء قرآن تو ان میں قصص ومواعظ، وعدہ، وعید بار بار لائے جاتے ہیں اور ان میں اللہ تعالیٰ کی ثناء ہے۔ گویا یہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتی ہیں۔ جب السبع کو مثانی قرار دو تو منتبیین کیلئے ہوگا اور جب قرآن کو مثانی بنائو۔ تو من ؔ تبعیض کے لئے ہوگا۔ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ (اور قرآن عظیم) یہ عطف الشیٔ علی نفسہ کی قسم سے نہیں۔ کیونکہ اگر السبع سے فاتحہ مراد لیں۔ یا طوال کو تو جو ان کے علاوہ ہے اس پر قرآن کا لفظ بولا جائیگا۔ کیونکہ یہ قرآن ایسا لفظ ہے کہ بعض پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ کل پر ہوتا ہے۔ اسکی دلیل یہ آیت ہے۔ بما اوحینا الیک ھذا القرآن ] یوسف : 3[ یعنی سورة یوسف۔ اور جب سات اجزائے قرآن مراد لیں تو پھر معنی یہ ہوگا ہم نے آپ کو وہ دیا جس کو السبع المثانی کہا جاتا ہے اور القرآن العظیم بھی کہلاتا ہے۔ وہ ان دونوں صفات کا جامع ہے۔ اور وہ دھرایا جانے والا ہے۔ نمبر 2۔ یا وہ ثناء و عظمت والا ہے۔ پھر اپنے رسول کو فرمایا۔
Top