Madarik-ut-Tanzil - An-Nahl : 126
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر عَاقَبْتُمْ : تم تکلیف دو فَعَاقِبُوْا : تو انہیں تکلیف دو بِمِثْلِ : ایسی ہی مَا عُوْقِبْتُمْ : جو تمہیں تکلیف دی گئی بِهٖ : اس سے ۭوَلَئِنْ : اور اگر صَبَرْتُمْ : تم صبر کرو لَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لِّلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والوں کے لیے
اور اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی تکلیف دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہت اچھا ہے۔
برابر کا بدلہ جائز ہے : 126: وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَاعُوْقِبْتُمْ بِہٖ (اگر بدلہ لو تو اتنا بدلہ لو جتنا تمہارے ساتھ برتائو کیا گیا) پہلے فعل کو عقوبت کہا حالانکہ عقوبت تو دوسرا فعل ہے لفظی مناسبت کی وجہ سے۔ جیسا کہ فرمایا۔ (وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا) ] الشوریٰ : 40[ اس آیت میں دوسری سیئہ نہیں۔ بلکہ سیئہ کا بدلہ ہے۔ مطلب یہ ہے اگر تمہارے ساتھ کوئی زیادتی قتل وغیرہ جیسی کی جائے تو اس کے مثل سے اس کا مقابلہ کرو اور اس پر اضافہ نہ کرو۔ روایت میں ہے کہ مشرکین نے بعض مسلمانوں کا احد کے دن مثلہ کیا اور ان کے پیٹ پھاڑ ڈالے۔ اور ان کے آلات تناسل کو کاٹا۔ نبی اکرم ﷺ نے حمزہ ؓ کو پھٹے ہوئے پیٹ کے ساتھ دیکھا تو آپ نے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اے حمزہ میں تیری جگہ ستر کفار کا مثلہ کروں گا۔ پس یہ آیت نازل ہوئی آپ نے اپنی قسم کا کفارہ ادا فرمایا اور جو ارادہ فرمایا اس سے باز رہے۔ ] ابن حجر۔ لم اجدہ[ اس میں اختلاف نہیں کہ مثلہ حرام ہے کیونکہ اس کی ممانعت میں روایات وارد ہیں جن میں کاٹنے والے کتے کے مثلہ سے بھی منع فرمایا۔ وَلَپنْ صَبَرْتُمْ لَھُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ (اور اگر تم صبر کرو تو ضرور وہ صبر کرنے والوں کیلئے بہت بہتر ہے) ھوؔ میں ضمیر صَبَرْتُمْ کے مصدر کی طرف لوٹتی ہے۔ اور صابرین سے مراد مخاطب ہیں۔ یعنی اگر تم صبر کرو تو تمہارا صبر تمہارے لئے بہت بہتر ہے۔ گویا الصابرین اسم ظاہر کو ضمیر کی جگہ لائے۔ اس سے مخاطبین کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے شاندار تعریف فرمائی۔ کیونکہ وہ سختیوں پر صبر کرنے والے تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کو فرمایا۔
Top