Madarik-ut-Tanzil - An-Nahl : 51
وَ قَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْۤا اِلٰهَیْنِ اثْنَیْنِ١ۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَاِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
وَقَالَ : اور کہا اللّٰهُ : اللہ لَا تَتَّخِذُوْٓا : نہ تم بناؤ اِلٰهَيْنِ : دو معبود اثْنَيْنِ : دو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں هُوَ : وہ اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : یکتا فَاِيَّايَ : پس مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : تم مجھ سے ڈرو
اور خدا نے فرمایا ہے کہ دو دو معبود نہ بناؤ۔ معبود وہی ایک ہے تو مجھی سے ڈرتے رہو
51 : وَقَالَ اللّٰہُ لَاتَتَّخِذُوا اِلٰھَیْنِ اثْنَیْنِ اِنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ (اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہ بنائو دو معبود۔ فقط اللہ تعالیٰ ہی ایک معبود ہے) سوال : دو اور ایک سے زائد میں عددو معدود کو جمع کیا جاتا ہے اور کہتے ہیں عندی رجال ثلاثۃ کیونکہ معدود خاص عدد پر دلالت سے عاری ہوتا ہے۔ ایک اور دو میں تو معدود کی خود عدد پر دلالت ہوتی ہے۔ پس رجل واحد اور رجلان اثنان کہنے کی ضرورت نہیں۔ جواب : واحد و تثنیہ کا معنی جس اسم میں ہوتا ہے۔ اس کی دلالت دو چیزوں پر ہوتی ہے۔ نمبر 1۔ جنسیت نمبر 2۔ خاص عدد۔ جب یہ دلالت مراد لیں کہ دونوں کا معنی عدد ہے تو اس کو دوبارہ لاکر تاکید کرتے ہیں اور اس سے مقصود الیہ پر دلالت اور اس پر خاص طور پر متوجہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اگر تم اس طرح کہو : اِنَّمَا ھُوَ اِلٰہ ٌ اور اس کی تاکید واحد سے نہ لائو تو کلام میں تحسین نہ ہوگی۔ تو اس سے خیال گزرے گا کہ تم نے الوہیت کو ثابت کیا ہے وحدانیت کو نہیں۔ حاصل یہ ہے کہ اس جگہ وحدانیت کو ثابت کرنا مقصود ہے الوہیت کا اثبات مقصود نہیں۔ الوہیت کے لوازم میں سے وحدانیت ہے۔ فَاِیَّا یَ فَارْھَبُوْنِ (پس مجھ ہی سے ڈرو) کلام غائب سے متکلم کی طرف منتقل کردیا گیا اور یہ التفات کا طریقہ ہے جو کہ ترغیب سے زیادہ بلیغ ہے جیسا کہ کہیں فایاہ فارھبوا۔ قراءت : فَارْھَبُونی یعقوب نے پڑھا ہے۔
Top