Madarik-ut-Tanzil - Al-Israa : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
اور انسان جس طرح (جلدی سے) بھلائی مانگتا ہے اسی طرح برائی مانگتا ہے اور انسان جلد باز (پیدا ہوا) ہے
انسان بددعا میں جلد باز ہے : 1 1: وَیَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآ ئَ ہٗ بِالْخَیْر (انسان جس طرح (جلدی) سے بھلائی مانگتا ہے اسی طرح برائی مانگتا ہے) تکلیف کے موقعہ پر ناراض ہو کر اپنے نفس اور اہل و عیال اور مال واولاد کیلئے بدعاء کرتا ہے جیسا کہ ان کیلئے خیر کی دعا کرتا ہے۔ نمبر 2۔ جلد ملنے والے نفع کا طالب ہے۔ اگرچہ وہ نفع قلیل مقدار میں ہو۔ اس نقصان کے بدلے میں جو بدیر آنے والا ہو اگرچہ وہ کتنا ہی بڑا ہو۔ وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا (اور انسان جلد باز (پیدا ہوا) ہے ہر وہ چیز جو اس کے دل میں آتی ہے اس کو جلد طلب کرتا ہے صابر کی طرح اس میں انتظار نہیں کرتا۔ نمبر 2۔ انسان سے کافر مراد ہے کیونکہ وہ عذاب کو بطور استہزاء مانگتا ہے اور جلد طلب کرتا ہے جیسا کہ جب تکلیف پہنچے تو جلدی سے رفاہیت کا طالب ہے اور انسان کے جلد باز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عذاب بہرصورت آنے والا ہے۔ پھر اس جلدی مچانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اس سے نضر بن حارث مراد ہے۔ اسی نے یہ کہا اللھم ان کان ھذا ھوالحق فامطر علینا الآیۃ ] انفال : 32[ پس اس کا جواب اس طرح ملا کہ پکڑ کر اس کی گردن ماری گئی۔ یدعؔ میں وائو کا خط سے ساقط ہونا مناسبت لفظی کی بناء پر ہے۔
Top