Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 46
مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا١ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى١ؕ وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا
مَنِ : جس اهْتَدٰى : ہدایت پائی فَاِنَّمَا : تو صرف يَهْتَدِيْ : اس نے ہدایت پائی لِنَفْسِهٖ : اپنے لیے وَمَنْ : اور جو ضَلَّ : گمراہ ہوا فَاِنَّمَا : تو صرف يَضِلُّ : گمراہ ہوا عَلَيْهَا : اپنے اوپر (اپنے بڑے کو) وَلَا تَزِرُ : اور بوجھ نہیں اٹھاتا وَازِرَةٌ : کوئی اٹھانے والا وِّزْرَ اُخْرٰى : دوسرے کا بوجھ وَ : اور مَا كُنَّا : ہم نہیں مُعَذِّبِيْنَ : عذاب دینے والے حَتّٰى : جب تک نَبْعَثَ : ہم (نہ) بھیجیں رَسُوْلًا : کوئی رسول
(اے پیغمبر، ) یہود میں کچھ (لوگ ایسے بھی) ہیں جو الفاظ کو ان کی اصلی جگہ سے پھیر دیا کرتے ہیں اور دین (حق) کے خلاف طعنہ زنی کی راہ سے '' سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا '' اور '' اِسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعِ '' اور '' رَاعِنَا '' کہہ کر (تم سے) خطاب کرتے ہیں اور اگر وہ '' سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا '' اور '' اِسْمَعْ '' اور '' اُنظُرنَا '' کہہ کر خطاب کرتے تو ان کے حق میں بہتر اور درست تر ہوتا مگر ان پر تو ان کے کفر کی وجہ سے اللہ کی پھٹکار ہے، پس ان میں سے تھوڑے ہی لوگ ایمان لاتے ہیں۔
[37] یعنی لفظی اور معنوی ہر قسم کی تحریف کرتے ہیں۔ [38] یعنی جب انہیں اللہ کے احکام سنائے جاتے تو زور سے کہتے سَمِعْنَا (ہم نے سن لیا) پھر آہستہ سے کہتے عَصَیْنَا (ہم نے نہیں مانا) ۔ [39] رسول اکرم ﷺ سے دوران گفتگو میں کہتے اِسْمَعْ (سنئے) اور ساتھ ہی غَیْرَ مُسْمَعٍ بھی بڑھا دیتے جو دعائیہ ہے اور کو سنا بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے اصل معنی ہیں کہ اللہ تم کو نہ سنوائے مگر کیا نہ سنوائے ؟ دوست ہوگا تو اس کی یہ مراد ہوگی کہ تم کو کسی بری بات سننے کا اتفاق نہ ہو اور دشمن ہوگا تو اس نیت سے کہے گا کہ تم بہرے ہوجاؤ۔ [40] اس کی تشریح سورة بقرہ کے حاشیہ 72 صفحہ 101 میں گزر چکی ہے۔ [41] ایضاً
Top