Madarik-ut-Tanzil - Al-Israa : 4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا
وَقَضَيْنَآ : اور صاف کہ دیا ہم نے اِلٰى : طرف۔ کو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل فِي الْكِتٰبِ : کتاب لَتُفْسِدُنَّ : البتہ تم فساد کروگے ضرور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مَرَّتَيْنِ : دو مرتبہ وَلَتَعْلُنَّ : اور تم ضرور زور پکڑوگے عُلُوًّا كَبِيْرًا : بڑا زور
اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل سے کہہ دیا تھا کہ تم زمین میں دو دفعہ فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی کرو گے
سرکش بنی اسرائیل : 4: وَقَضَیْنَآ اِلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ فِی الْکِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ (اور ہم نے بنی اسرائیل کو صاف بتلا دیا تھا کہ تم ضرور زمین میں فساد کرو گے) ہم نے ان کی طرف فیصلہ کن و حی اتاری یعنی قطعی طے شدہ بات ہے کہ وہ زمین میں فساد کریں گے۔ الکتابؔ سے تورات مراد ہے۔ لَتُفْسِدُنَّ یہ قسم محذوف کا جواب ہے نمبر 2۔ قطعی فیصلہ قسم کے قائم مقام ہے اور لَتُفْسِدُنَّ اس کا جواب ہے گویا اس طرح فرمایا اقسمنا لتفسدن فی الارض۔ مَرَّتَیْنِ (دو مرتبہ) پہلی مرتبہ جب زکریا (علیہ السلام) کو قتل کیا اور ارمیاء (علیہ السلام) کو قید میں ڈالا گیا۔ اس لئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے ان کو ڈرایا۔ اور دوسری مرتبہ جب یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کو قتل کیا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا ارادہ کیا۔ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا (اور تم بڑی سخت سرکشی کروگے) اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے تکبر اختیار کروگے۔ یہ اسی طرح ہے جیسا دوسری آیت میں علو کا معنی ہے : اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ ] القصص : 4[ اس سے مراد ظلم، سرکشی اور مفسدین کا اصلاح کرنے والوں پر غلبہ پانا ہے۔
Top