Madarik-ut-Tanzil - Al-Kahf : 102
اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ یَّتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْۤ اَوْلِیَآءَ١ؕ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ نُزُلًا
اَفَحَسِبَ : کیا گمان کرتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ جنہوں نے کفر کیا اَنْ يَّتَّخِذُوْا : کہ وہ بنالیں گے عِبَادِيْ : میرے بندے مِنْ دُوْنِيْٓ : میرے سوا اَوْلِيَآءَ : کارساز اِنَّآ : بیشک ہم اَعْتَدْنَا : ہم نے تیار کیا جَهَنَّمَ : جہنم لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے نُزُلًا : ضیافت
کیا کافر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بندوں کو ہمارے سوا (اپنا) کار ساز بنائیں گے (تو ہم خفا نہیں ہوں گے) ؟ ہم نے (ایسے) کافروں کے لئے جہنم کی (مہمانی) تیار کر رکھی ہے
بندوں کو کارساز بنانے والے کافر ہیں : 102: اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَنْ یَّتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْ اَوْلِیَآ ئَ (کیا پھر بھی ان کافروں کا خیال ہے کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز بنالیں) یعنی کفار نے میرے بندوں کو گمان کرلیا۔ یعنی عبادی سے عیسیٰ (علیہ السلام) اور کفار مراد ہیں۔ کارساز بنانا جو ان کو فائدہ دیگا ؟ یہ بدترین گمان ہے جو انہوں نے کیا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے اَنْؔ اپنے صلہ کے ساتھ مل کر افحسب کے دو مفعولوں کے قائم مقام ہے۔ اور عِبَادِیْ اَوْلِیَاء یہ دونوں اَنْ یَتَّخِذُوْا ؔ کے مفعول ہیں۔ اور یہ وجہ بہت اعلیٰ ہے مطلب یہ ہے وہ بندے ان کے کارساز نہیں ہیں۔ میرے بندوں کو کارساز بنانے والا گمان کفار کا گمان ہے وہ کارساز نہیں ہیں : اِنَّآ اَعْتَدْنَا جَہَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ نُزُلًا (بےشک ہم نے جہنم کو کافروں کی مہمانی کیلئے تیار کیا ہے۔ نُزُل اس چیز کو کہا جاتا ہے جو مہمان کیلئے بنائی جائے۔ اور اس کی مثال دوسری آیت میں ہے : فبشرھم بعذاب الیم ] آل عمران : 21[
Top