Madarik-ut-Tanzil - Al-Kahf : 96
اٰتُوْنِیْ زُبَرَ الْحَدِیْدِ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا سَاوٰى بَیْنَ الصَّدَفَیْنِ قَالَ انْفُخُوْا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَعَلَهٗ نَارًا١ۙ قَالَ اٰتُوْنِیْۤ اُفْرِغْ عَلَیْهِ قِطْرًاؕ
اٰتُوْنِيْ : مجھے لادو تم زُبَرَ الْحَدِيْدِ : لوہے کے تختے حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب سَاوٰى : اس نے برابر کردیا بَيْنَ : درمیان الصَّدَفَيْنِ : دونوں پہاڑ قَالَ : اس نے کہا انْفُخُوْا : دھونکو حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا جَعَلَهٗ : جب اسے کردیا نَارًا : آگ قَالَ : اس نے کہا اٰتُوْنِيْٓ : لے آؤ میرے پاس اُفْرِغْ : میں ڈالوں عَلَيْهِ : اس پر قِطْرًا : پگھلا ہوا تانبہ
تو تم لوہے کے (بڑے بڑے) تختے لاؤ (چنانچہ کام جاری کردیا گیا) یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کے درمیان (کا حصہ) برابر کردیا اور کہا کہ (اب اسے) دھونکو یہاں تک کہ جب اسکو (دھونک دھونک کر) آگ کردیا گیا تو کہا کہ (اب) میرے پاس (تانبا) لاؤ کہ میں اس پر پگھلا کر ڈال دوں
96: اٰتُوْنِیْ زُبَرَ الْحَدِیْدِ (تم میرے پاس لوہے کے ٹکڑے لائو) الزبرۃؔ لوہے کا بڑا ٹکڑا۔ نمبر 1۔ ایک قول یہ ہے کہ اس نے کھدائی کی یہاں تک کہ پانی تک پہنچ گیا۔ اور بنیاد میں چٹانیں ڈالیں۔ اور پگھلا ہوا تانبا اور لوہے کے ٹکڑوں کی دیوار کے درمیان لکڑی اور کوئلہ رکھا۔ یہاں تک کہ جب دونوں پہاڑوں کے درمیانی درے کو بھر کر ان پہاڑوں سے بلند کردیا۔ پھر پھونکنے والے آلات لگائے اور آگ نے لکڑی اور کوئلے کی مدد سے لوہے کو آگ کی طرح گرم کردیا۔ تو گرم لوہے پر پگھلا ہوا تانبا ڈال دیا گیا جو سوراخوں اور رخنوں میں پیوست ہوتا چلا گیا۔ اور وہ لوہے کے ٹکڑے ایک دوسرے سے پیوست ہوگئے یہ مضبوط پہاڑ کی طرح بن گیا دوسرا قول یہ ہے کہ سدین کے درمیانی فاصلہ کی مقدار سو فرسخ ہے۔ واللہ اعلم۔ حَتّٰی اِذَا سَاوٰی بَیْنَ الصَّدَفَیْنِ (یہاں تک کہ جب درے ملاتے ملاتے دونوں سروں کو برابر کردیا) صَدَفین کو دونوں فتحوں سے پڑھا گیا ہے۔ مراد اس سے پہاڑوں کی جانبین ہیں۔ کیونکہ وہ پہاڑ آپس میں متقابل تھے۔ قراءت : مکی و بصری و شامی نے الصُدُفَین پڑھا۔ اور ابوبکر نے الصُدْفَیْن۔ قَالَ انْفُخُوْا (اس نے کہا دھونکنا شروع کرو) یعنی ذوالقرنین نے عملہ کو کہا لوہے پر پھونک لگائو۔ حَتّٰی اِذَا جَعَلَہٗ نَارًا (یہاں تک کہ جب اس کو آگ کی طرح کردیا) لوہے کو آگ کی طرح سرخ کردیا۔ قَالَ ٰاتُوْنِیْ (اس نے کہا تم میرے پاس لائو) تم مجھے دو ۔ اُفْرِغْ (میں اس پر انڈیل دوں) عَلَیْہِ قِطْرًا (پگھلا ہوا تانبا) کیونکہ وہ قطرات کی صورت میں گرتا ہے۔ قطرًاؔ یہ افرغؔ کی وجہ سے منصوب ہے۔ تقدیر عبارت یہ ہے : ٰاتُوْنِی قطرًا اُفْرِغ علیہ قطرًا اول کو حذف کردیا کیونکہ ثانی اس پر دلالت کر رہا تھا۔ قراءت : حمزہ نے قال ائتونی کو وصل سے پڑھا جب اس سے ابتداء کریں تو الف مکسور ہوگا۔ اس کا معنی لانا ہے۔
Top