Madarik-ut-Tanzil - Maryam : 20
قَالَتْ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّ لَمْ اَكُ بَغِیًّا
قَالَتْ : وہ بولی اَنّٰى : کیسے يَكُوْنُ : ہوگا لِيْ : میرے غُلٰمٌ : لڑکا وَّ : جبکہ لَمْ يَمْسَسْنِيْ : مجھے چھوا نہیں بَشَرٌ : کسی بشر نے وَّ : اور لَمْ اَكُ : میں نہیں ہوں بَغِيًّا : بدکار
مریم نے کہا کہ میرے ہاں لڑکا کیونکر ہوگا مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار بھی نہیں ہوں
20: قَالَتْ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ (کہا میرے لڑکا کیسے ہوگا) اَنّٰی یہاں کیف کے معنی میں اور غلام ابن کے معنی میں ہے۔ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ (اور مجھے کسی انسان نے نہیں چھوا) یعنی نکاح سے کوئی میرا خاوند نہیں۔ وَّلَمْ اَ کُ بَغِیًّا (اور میں نے برا کام بھی نہیں کیا) یعنی فاجرہ عورت۔ جو مردوں کو تلاش کرتی پھرے یعنی کسی بھی آدمی سے اپنی شہوت کو پورا کرے اور عادت یہ ہے کہ لڑکا ان دو صورتوں سے ہی ہوتا ہے۔ مبرد کہتے ہیں کہ بغی فعول کے وزن پر ہے اصل بغوی ہے وائو کو یا کر کے اس میں ادغام کردیا اور اتباعا غین کو کسرہ دیا اسی وجہ سے اس میں تائے تانیث نہیں جس طرح کہ امرئۃ صبور و شکور میں دیگر علماء نحو نے یہ کہا کہ یہ فعیل کے وزن پر ہے اور اس کے آخر میں ہ نہیں آتی کیونکہ یہ مفعولہ کے معنی میں ہے۔ اور اگر فاعلہ کے معنی میں ہو تو کبھی اس میں مشابہت ہوجاتی ہے جیسے : ان رحمت اللّٰہ قریبٌ] الاعراف : 56[
Top