Madarik-ut-Tanzil - Maryam : 42
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْئًا
اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو يٰٓاَبَتِ : اے میرے ابا لِمَ تَعْبُدُ : تم کیوں پرستش کرتے ہو مَا لَا يَسْمَعُ : جو نہ سنے وَلَا يُبْصِرُ : اور نہ دیکھے وَلَا يُغْنِيْ : اور نہ کام آئے عَنْكَ : تمہارے شَيْئًا : کچھ
جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں ؟
42: اِذْ قَالَ (جب اس نے کہا) ۔ نحو : اذکو کان کے متعلق کریں جائز ہے یا صدیقًا نَبِیًّا کے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ خطابات ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنے والد کو کہے تو اس وقت وہ صدیقین اور انبیاء کی خصوصیات کو اپنے اندر جمع کرنے والے تھے۔ آنحضرت ﷺ کو ان کے تذکرہ کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا جو واقعہ قرآن مجید میں آیا ہے وہ ذکر کریں اور لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور ان کو پہنچائیں جیسا کہ دوسرے قول میں موجود ہے۔ واتل علیھم نبأ ابراہیم ] شعرائ : 69[ ورنہ تو اللہ تعالیٰ اس کا خود تذکرہ فرمانے والے ہیں اور قرآن میں اتارنے والے ہیں۔ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ (اپنے والد کو کہ اے میرے باپ) قراءت اَبَتِ کی تاء کو فتحہ اور کسرہ سے ابن عامر نے پڑھا۔ تاء یائے اضافت کے عوض ہے اس طرح نہیں کہتے کہ یَابَتِ تاکہ عوض اور معوض دونوں جمع نہ ہوجائیں۔ لِمَ تَعْبُدُ مَالَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ (تم ان کی عبادت کیوں کرتے ہو جو نہ سنتے اور نہ دیکھتے ہیں۔ ) نحو : ان دونوں میں مفعول نیت میں نہیں بلکہ نسیامنسیا ہے البتہ مقدر مانناجائز ہے ای لا یسمع شیئًا و لا یبصر شیئا وَلَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئًا (اور نہ آپ کے کچھ کام آسکتی ہے) ۔ نحو : شیئا کے متعلق یہ احتمال ہے کہ مصدر کی جگہ ہو ای شیئا من الغنی دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ مفعول بہ ہو پھر اس محاورے میں ہو أغن عنِّی وجھک اے بعد یعنی چہرے کو مجھ سے دور کردے۔
Top