Madarik-ut-Tanzil - Maryam : 45
یٰۤاَبَتِ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَكُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا
يٰٓاَبَتِ : اے میرے ابا اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں اَنْ : کہ يَّمَسَّكَ : تجھے آپکڑے عَذَابٌ : عذاب مِّنَ : سے۔ کا الرَّحْمٰنِ : رحمن فَتَكُوْنَ : پھر تو ہوجائے لِلشَّيْطٰنِ : شیطان کا وَلِيًّا : ساتھی
ابا مجھے ڈر لگتا ہے کہ آپ کو خدا کا عذاب آپکڑے تو آپ شیطان کے ساتھی ہوجائیں
45: یٰٓاَبـَتِ اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّکَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَکُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا (اے میرے باپ مجھے ڈر ہے رحمان کی طرف سے کوئی عذاب آپ پر نہ آجائے۔ پھر آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں) ایک قول کے مطابق یہاں اَخَافُ اَعْلَمُ کے معنی میں ہے۔ وَلِیًّا کا معنی آگ میں ساتھی بنے گا۔ تو اس کے ساتھ ہوگا اور وہ تیرے ساتھ ہوگا۔ فائدہ : اس میں غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نصیحت کرنے میں انہوں نے اپنے والد کے ساتھ کس طرح نرمی حسن اخلاق اور ادب کا لحاظ رکھا۔ جیسا کہ حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف وحی کی کہ تو میرا خلیل ہے پس تمہارے اخلاق عمدہ ہونے چاہئیں خواہ کفار کے ساتھ ہو ایسا کرنے سے تم ابرار کے مقامات میں داخل ہوجائو گے۔ (ذکرہ الھیثمی فی مجمع الزوائد) نمبر 1۔ اسی لئے آپ نے اپنے خطاب میں سبب کا مطالبہ کیا جیسا کہ اصرار کرنے والے کو اس کے اصرار پر متنبہ کیا جاتا ہے اور اس کے افراط اور انتہاء پسندی کے متعلق اس کو خبردار کیا جاتا ہے کیونکہ جو شخص مخلوق میں سب سے زیادہ درجہ والے یعنی انبیاء ( علیہ السلام) کی عبادت میں لگے۔ اس پر کھلی گمراہی کا حکم لگایا جائے گا۔ تو وہ کیونکر گمراہ نہ ہوگا۔ جو درخت، پتھر کی پوجا کرتا ہو۔ جو کہ اپنے عابد کے نہ ذکر کو سنتے ہیں اور نہ ہی اس کی کیفیت عبادت سے واقف ہیں۔ اور نہ اس سے بلاء و مصیبت کو دور کرنے کی ان میں طاقت ہے اور نہ اس کی وہ حاجت روائی کرسکتے ہیں۔ نمبر 2۔ پھر دوسرے مرحلہ میں نرمی کے ساتھ اس کو حق کی طرف دعوت دی اور خوش خلقی کا مظاہرہ کیا اس لئے والد کو جہل مفرط میں مبتلا اور نہ اپنے آپ کو علم فائق والا قرار دیا۔ البتہ یہ کہا کہ میرے ساتھ ایسا علم ہے جو تیرے ساتھ نہیں اور علم والا درست راستے کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ پس اس طرح خیال کرو کہ میں اور تم دونوں ایک راہ پر ہیں اور میرے پاس ہدایت کی معرفت موجود ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے۔ پس تم میرے ساتھ چلے آئو ! میں تمہیں راستہ بھولنے اور تحیرو حیرانی میں مبتلا ہونے سے بچا لو نگا۔ تیسرے مرحلہ میں ان کو اس بات سے روکا۔ جس میں وہ مبتلا تھا۔ کہ وہ شیطان جو رحمان کا سب سے بڑا نافرمان ہے اس نے تمہیں بتوں کی عبادت میں مبتلا کر رکھا ہے اور اس کو مزین کر کے تمہارے سامنے پیش کیا ہے۔ حقیقت میں تو شیطان کی عبادت کر رہا ہے۔ حالانکہ رحمان نے تمام تر نعمتیں تجھے بخشی ہیں۔ نمبر 4۔ پھر چوتھے مرحلہ میں برے انجام سے اس کو ڈرایا۔ کہ جس کی وہ جرأت کر رہا ہے اس میں کیا وبال و نقصان ہے۔ مگر ان تمام مراحل میں ادب کی رعایت کرتے ہوئے یہ تصریح نہیں کی کہ عقاب اس کو پہنچنے والا ہے۔ اور عذاب اس کو چمٹنے والا ہے۔ بلکہ کہا اخاف ان یمسک عذاب۔ عذاب کو نکرہ لائے جو تقلیل کو ظاہر کرتا ہے گویا اس طرح کہا انی اخاف ان یمسک قلیل من عذاب الرحمان۔ مجھے خطرہ ہے کہ تمہیں رحمان کا تھوڑا سا عذاب چھو لے گا۔ اور شیطان کی دوستی اور اس کے حمایتیوں اور معاونین میں داخلے کو عذاب سے بڑا قرار دیا جس طرح کہ اللہ کی رضا مندی ثواب میں سب سے بڑھ کر ہے اور ہر نصیحت کو یٰٓاَبَتِ کے قول سے شروع کیا جس سے ان کے ساتھ اپنے تعلق اور مہربانی اور والد کے احترام کے لازم ہونے کو ظاہر کرنا مقصود ہے اگرچہ وہ باپ کافر ہی کیوں نہ ہو۔
Top