Madarik-ut-Tanzil - Maryam : 61
جَنّٰتِ عَدْنِ اِ۟لَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَهٗ بِالْغَیْبِ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ وَعْدُهٗ مَاْتِیًّا
جَنّٰتِ عَدْنِ : ہمیشگی کے باغات الَّتِيْ : وہ جو وَعَدَ : وعدہ کیا الرَّحْمٰنُ : رحمن عِبَادَهٗ : اپنے بندے (جمع) بِالْغَيْبِ : غائبانہ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے وَعْدُهٗ : اس کا وعدہ مَاْتِيًّا : آنے والا
(یعنی) بہشت جاودانی (میں) جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے (اور جو کوئی آنکھوں سے) پوشیدہ (ہے) بیشک اس کا وعدہ (نیکوکاروں کے سامنے) آنے والا ہے
61: جَنّٰتِ عَدْنِ اڑلَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَہٗ (ہمیشہ رہنے کے وہ باغات جن کا رحمان نے اپنے بندوں سے وعدہ فرمایا ہے) نحو : جنّٰت یہ الجنت سے بدل ہے کیونکہ جنت جنّٰتِ عدن پر مشتمل ہے اور جنت جنس ہے۔ (2) یا یہ مدح کی بنا پر منصوب ہے اور عدن یہ معرفہ ہے کیونکہ معرفہ ہونے کی وجہ سے العدن کے معنی میں ہے جس کا معنی اقامت ہے۔ (3) یا یہ جنت کی زمین کا نام ہے کیونکہ وہ اقامت کی جگہ ہے عبادہ سے مراد رجوع کرنے والے مؤمنین ہیں جو کہ اعمال صالحہ کرتے رہیں جیسا کہ ان کا تذکرہ بھی گزرا اور اس لئے بھی کہ ان کی اضافت اپنی طرف فرمائی جو کہ اختصاص کی دلیل ہے پس یہ خاص لوگ ہوئے۔ بِالْغَیْبِ (غائبانہ طور پر) یعنی جنت کا ان سے ایسے حال میں وعدہ کیا کہ وہ ان سے غائب تھی ان کے سامنے موجود نہ تھی یہ جنت سے غائب ہیں۔ اور اس کا مشاہدہ نہیں کر رہے (لیکن اس کے باوجود اس پر ایمان لانے والے ہیں) اِنَّہٗ کَانَ وَعْدُہٗ مَاْتِیًّا ( بیشک اللہ تعالیٰ کی وعدہ کی ہوئی چیز کو وہ ضرور پہنچیں گے) ہ ضمیر شان ہے۔ یا ضمیر کا مرجع الرحمان ہے۔ وعدہ سے مراد موعودہ جس کا وعدہ کیا گیا یعنی جنت۔ مأ تِیًّایہ اسم ظرف ہے یا اسم مفعول جو بمعنی فاعل ہے یعنی جنت میں وہ ضرور جائیں گے۔
Top