Madarik-ut-Tanzil - Maryam : 67
اَوَ لَا یَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ یَكُ شَیْئًا
اَوَ : کیا لَا يَذْكُرُ : یاد نہیں کرتا الْاِنْسَانُ : انسان اَنَّا : بیشک ہم خَلَقْنٰهُ : ہم نے اسے پیدا کیا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَلَمْ يَكُ : جبکہ وہ نہ تھا شَيْئًا : کچھ بھی
کیا (ایسا) انسان یاد نہیں کرتا کہ ہم نے اس کو پہلے بھی تو پیدا کیا تھا اور وہ کچھ بھی چیز نہ تھا ؟
منکرین بعثت کو جواب : 67: اَوَلَا یَذْکُرُ الْاِنْسَانُ (کیا یہ شخص اس بات کو نہیں سمجھتا کہ ) قراءت : شامی، نافع وعاصم نے الذکر سے قراردے کر تخفیف سے پڑھا ہے۔ اور باقی قراء نے ذالؔ اور کاف کی تشدید سے پڑھا ہے اور اس کی اصل یتذکر ہے جیسا کہ حضرت ابی ؓ کی قراءت ہے تاء کا ذال میں ادغام کردیا۔ اس کا معنی اَوْلَایَتَدَبَّرُ ؟ (کیا وہ تدبر نہیں کرتے) وائو عاطفہ ہے اور یقول پر اس کا عطف ہے۔ اور ہمزہ انکار معطوف علیہ اور معطوف کے درمیان لائے ہیں۔ مطلب یہ ہے : ایقول ذلک ولا یتذکر حال النشأۃ الاولی حتی لا ینکر النشأۃ الاخری ؟ کیا وہ یہ بات کہتے ہوئے پہلی پیدائش کا حال یاد نہیں کرتا تاکہ وہ دوسری کا انکار نہ کرتا ؟ اول حالت خالق کی قدرت پر زیادہ دلالت کرنے والی ہے۔ اس طرح کہ اس نے جو اہر و اعراض کو عدم سے وجود بخشا۔ اور دوسری حالت تو صرف اجزائے موجودہ کو جوڑ دینا اور تفریق کے بعد مجموعہ کی شکل دینا ہے۔ اَنَّا خَلَقْنٰـہُ مِنْ قَبْلُ (بیشک ہم نے اس کو اس سے قبل پیدا کیا) اس حالت سے پہلے جس میں وہ ہے اور وہ حالت بقاء ہے۔ وَلَمْ یَکُ شَیْئًا (وہ کچھ بھی نہ تھا) اور وہ دلیل ہے کہ معدوم کوئی چیز نہیں۔ جیسا کہ ہم نے بیان کیا۔ البتہ معتزلہ کا اس میں اختلاف ہے۔
Top