Madarik-ut-Tanzil - Maryam : 73
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا١ۙ اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَّ اَحْسَنُ نَدِیًّا
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُنَا : ہماری آیتیں بَيِّنٰتٍ : واضح قَالَ : کہتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا لِلَّذِيْنَ : ان سے جو اٰمَنُوْٓا : وہ ایمان لائے اَيُّ : کون سا الْفَرِيْقَيْنِ : دونوں فریق خَيْرٌ مَّقَامًا : بہتر مقام وَّاَحْسَنُ : اور اچھی نَدِيًّا : مجلس
اور جب ان لوگوں کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو جو کافر ہیں وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ دونوں فریق میں سے مکان کس کے اچھے اور مجلسیں کس کی بہتر ہیں ؟
مشرکین کا فقرائے صحابہ ؓ کو استہزاء : 73: وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰـتُنَا ( جب ان پر ہماری آیات پڑھی جاتیں) آیات سے مراد یہاں قرآن ہے۔ بَیِّنٰتٍ واضح یعنی جن کا معجزہ ہونا ظاہر ہے۔ یا بینات کا معنی دلائل وبراہین۔ نحو : یہ حال موکدہ ہے جیسا کہ اس آیت میں : وَھُوَ الحَقُّ مصدقًا ] البقرہ : 91[ اس لئے کہ آیات اللہ تو واضح ہی ہوتی ہیں اور دلیل ہی ہوتیں ہیں۔ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا (تو کافر کہتے ہیں) یعنی کافروں سے یہاں مشرکین قریش مراد ہیں جو کہ مالدار اور اپنے بالوں کو کنگھی کرنے والے اور زینت میں تکلف کرنے والے تھے۔ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ( ان لوگوں کو جو ایمان لائے یعنی فقرائے صحابہ کو جن کے سروں کے بال پراگندہ اور کپڑے کھردرے اور موٹے تھے) اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ (دونوں جماعتوں میں سے کون سی جماعت ہم یا تم) خَیْرٌ مَّقَامًا (مرتبے کے اعتبار سے زیادہ اچھی ہے) ۔ نحو : مقامًا میم کے فتحہ کے ساتھ موضع قیام کو کہتے ہیں مراد اس سے جائے سکونت اور مکان ہے اور ضمہ کے ساتھ جیسا کہ مکی نے پڑھا موضع اقامت اور منزل مراد ہے۔ وَ اَحْسَنُ نَدِیًّا (زیادہ اعلیٰ ہے مجلس کے لحاظ سے۔ ) ندیا ایسی مجلس جس میں مشورے کیلئے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے اللہ فرماتے ہیں کہ جب ہم نے ایسی نشانی اتاردی جس میں دلائل وبراہین تھے تو انہوں نے اس میں تدبیر سے اعراض کر کے مال و دولت اور حالت و مکان کی خوبصورتی پر فخر کی طرف رخ کرلیا۔ پس اسی لئے ارشاد فرمایا :
Top