Madarik-ut-Tanzil - Maryam : 82
كَلَّا١ؕ سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ وَ یَكُوْنُوْنَ عَلَیْهِمْ ضِدًّا۠   ۧ
كَلَّا : ہرگز نہیں سَيَكْفُرُوْنَ : جلد ہی وہ انکار کرینگے بِعِبَادَتِهِمْ : ان کی بندگی سے وَيَكُوْنُوْنَ : اور ہوجائیں گے عَلَيْهِمْ : ان کے ضِدًّا : مخالف
ہرگز نہیں وہ معبودان باطل انکی پرستش سے انکار کریں گے اور ان کے دشمن (و مخالف) ہوں گے
معبودین کی بیزاری : 82: کَلَّا سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِھِمْ ( ہرگز ایسا نہیں عنقریب وہ ان کی عبادت کا انکار کریں گے) کلا یہاں ردعیہ ہے اور ان کے ایمان کی تردید کیلئے آیا ہے ھم کی ضمیر آلہۃ کی طرف جارہی ہے کہ عنقریب وہ ان کی عبادت کا انکار کریں گے اور اس سے ناواقفیت ظاہر کرتے ہوئے کہیں گے اللہ کی قسم تم نے ہماری عبادت نہیں کی تم جھوٹے ہو (2) یہ ضمیر مشرکین کی طرف لوٹ رہی ہے یعنی وہ اس بات سے انکار کردیں گے کہ انہوں نے ان بتوں کی عبادت کی ہے جیسا کہ اس آیت میں فرمایا اور کہیں گے اللہ کی قسم تم نے ہماری عبادت نہیں کی تم جھوٹے ہو یا مشرکین کو کہیں گے یعنی وہ اس بات کا انکار کریں گے کہ انہوں نے بتوں کی عبادت کی ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے : واللّٰہ ربنا ماکنا مشرکین ] الانعام : 23[ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْھِمْ ضِدًّا ( اور وہ ہونگے ان کے مخالف) یعنی وہ بت مشرکین کے خلاف جھگڑیں گے اللہ ان کو قوت گویائی دیں گے۔ ضدًا (مخالف) کیونکہ اللہ ان کو بولنے کی طاقت دیں گے پس وہ کہیں گے اے ہمارے رب ان لوگوں کو عذاب دے جنہوں نے ہماری عبادت کی۔ ضِدْ کا لفظ جمع اور واحد دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ لہم عِزًّا کے مقابلے میں آیا ہے اور مراد عزت کی ضد یعنی ذلت و رسوائی ہے یعنی وہ ان کے مخالف ہونگے جس کا انہوں نے قصد کیا یعنی ان کے لئے ذلت کا باعث ہونگے عزت کا باعث نہ بنیں گے اگر سَیَکْفُرُوْنَ اور یَکُوْنُوْنَ کی ضمیر مشرکین کی طرف لوٹائیں تو مطلب یہ ہوگا وہ مشرکین ان کے خلاف ہوجائیں گے یعنی انکا انکار کردیں گے۔ باوجود اس کے کہ وہ ان کی عبادت کرتے رہے۔
Top