Madarik-ut-Tanzil - Maryam : 92
وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًاؕ
وَمَا : جبکہ نہیں يَنْۢبَغِيْ : شایان لِلرَّحْمٰنِ : رحمن کے لیے اَنْ يَّتَّخِذَ : کہ وہ بنائے وَلَدًا : بیٹا
اور خدا کو شایاں نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے
92: وَمَا یَنْبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا (اور رحمان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اولاد اپنے لئے تجویز کرے) انبغی یہ بغٰی کا مطاوع بن کر آتا ہے۔ اس کا معنی طلب کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ طلب شئی کے بعد اس شیٔ کے ہوجانے کی باری آتی ہے۔ اب اگر بالفرض اللہ تعالیٰ اپنے لئے اولاد کا طالب بھی ہو۔ تب بھی اولاد اس کیلئے ممکن نہیں۔ اس کی اولاد ہو ہی نہیں سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکا بنانا حاجت و جنسیت کو چاہتا ہے اور اس کی ذات ان دونوں باتوں سے پاک ہے۔ کیونکہ یہ دونوں نقص و عیب ہیں۔ نکتہ : رحمان کے لفظ کو بار بار دھرایا گیا تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ رحمان اکیلا ہی اس صفت کا حقدار ہے اور کوئی اس کا مستحق نہیں کیونکہ تمام نعمتوں کا سرچشمہ وہی ہے اے انسان اپنی آنکھوں سے پردہ ہٹا اور پھر دیکھ جو کچھ بھی تیرے پاس ہے سب اس کا عطیہ ہے پس جنہوں نے اس کی طرف اولاد کی نسبت کی انہوں نے اس کو مخلوق کا حصہ قرار دیا اور اللہ تعالیٰ کی صفت رحمان کا انکار کیا حالانکہ اس کا وہی اکیلا مستحق ہے۔
Top