بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم : الف لام میم
الم
حروفِ مقطعات کی بحث : الٓمّٓ: الٓمّٓ اور اسکے ہم مثل حروف مقطعات حقیقت میں ایسے اسماء ہیں جن کے مصداق وہ حروف تہجی ہیں جن سے مل کر کلمات بنتے ہیں۔ پس الف قال کے درمیان والے حرف پر دلالت کرتا ہے۔ اور لام اسکے آخری حرف پر دلالت کررہا ہے اور ان کے مشابہہ حروف کا یہی حال ہے۔ اسمیت کے دلائل : پہلی دلیل یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے ذاتی معنی پر دلالت کرتا ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ امالہ، تفخیم، تعریف وتنکیر (معرفہ ونکرہ ہونا) اسی طرح جمع اور تصغیر سے ان میں تبدیلی کی جاتی ہے۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ نحوی حیثیت میں یہ معرب ہیں، البتہ ان میں سکون زَیْد وغیرہ اسماء کی طرح ہے۔ کہ اعراب کا مقتضی موجود نہ ہونے کی وجہ سے اعراب نہیں آسکتا۔ بعض نے ان کو مبنی کہا ہے۔ اس لئے کہ یہ اصوات کی طرح ہیں۔ مثلًا غاق۔ یہ کوے کی آواز کی حکایت ہے۔ جمہور علماء کا قول : یہ ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں۔ قول ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما : ان حروف سے اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ قول ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ : یہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہیں۔ بعض کا قول : یہ ان متشابہات میں سے ہیں۔ جن کی تاویل سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ اور ان کو معجم ان کے ابہام واخفاء کی وجہ سے ہی کہا جاتا ہے۔ بعض دوسروں کا قول : یہ اسماء ہیں جن کو شروع میں بطور تعدید کے لایا گیا ہے۔ گویا کہ قرآن مجید نے جن کو چیلنج کیا تھا ان کو قرآن بیدار کر رہا ہے۔ اور آمادہ کر رہا ہے کہ وہ اس نازل شدہ وحی پر غور کریں جس کا مقابلہ کرنے سے وہ اول سے آخر تک عاجز آچکے۔ جبکہ اس کلام کے موتی ان کلمات سے ہی پروئے گئے ہیں جن سے انکا اپناکلام بنتا ہے۔ تاکہ یہ غور و فکر ان کو اس پر یقین لانے کی طرف آمادہ کرے۔ اگر اب تک انہوں نے اپنا سر اسکے سامنے سرنگوں نہیں کیا۔ اور بار بار رجوع کے باوجود ان کو اپنی عاجزی ظاہر نہیں ہوئی۔ حالانکہ وہ کلام کے ماہرین ہیں۔ (تاکہ اب بھی جاگ کر اپنی عاجزی مان لیں) کیونکہ یہ تمام باتیں ثابت کر رہی ہیں کہ یہ کلام بشر نہیں بلکہ خالق اور قادر مطلق کا کلام ہے۔ نصیب والوں کے لئے تو یہ بات بڑا مقام رکھتی ہے۔ (آئو اور اپنا نصیبہ آزمائو) دیگر بعض کا قول : یہ ہے کہ ان سے سورتوں کو اس لئے شروع کیا گیا۔ تاکہ سب سے پہلے جو چیز سامع کے کانوں کو کھٹکھٹائے وہ ایک انوکھا انداز کلام ہو۔ جو دلائل اعجاز کیلئے ایک مقدمے کا کام دے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حروف کے ذریعہ عمدہ اور نفیس کلام کرنے میں تمام عرب برابر تھے۔ خواہ ان پڑھ طبقہ ہو یا پڑھا لکھا طبقہ ہو۔ البتہ : حروف کے اسماء کو وہ لوگ استعمال کرتے تھے۔ جنہوں نے خود پڑھنا لکھنا سیکھایا اہل کتاب سے انکا میل جول تھا اور ان سے انہوں نے سیکھ لیا تھا۔ کسی امی کا ان اسماء حروف سے کلام کرنا اس طرح بعید تر تھا جس طرح کسی امی کا بغیر پڑھے لکھنا اور تلاوت کرنا۔ پس آپ ﷺ کا ان اسماء کو اپنے کلام میں استعمال کرنا۔ باوجود یکہ یہ بات مشہور و معروف تھی کہ آپ ﷺ نے اہل کتاب کے کسی بھی فرد سے کوئی چیز بھی حاصل نہیں کی۔ (یہ استعمال) وہی حکم رکھتا ہے جو ان واقعات وقصص کے بیان کرنے کا تھا جن سے قریش وغیرہ پہلے سے ناواقف تھے۔ اس سے تو یہ بات خود ثابت ہوگئی کہ یہ سب آپ کو وحی الٰہی سے حاصل ہوا۔ جو آپ کی نبوت کی واضح شہادت ہے۔ دلیل اعجاز کا دوسرا انداز : یہ بات معلوم ہے۔ کہ ابتداء میں جو حروف وارد ہوئے ہیں۔ ان میں نصف تو حروف معجمہ کے اسماء ہیں جو درج ذیل ہیں۔ الالف، اللام، المیم، الصاد، الرائ، الکاف، الھائ، الیائ، العین، الطائ، السین، الحائ، القاف، النون۔ تعدادِ حروف : حروف معجمہ کی تعداد انتیس ہے، اور مذکورہ بالا حروف انتیس سورتوں کے شروع میں آئے ہیں۔ پھر ایک اور لطیفہ یہ ہے کہ ان پائے جانے والے حروف میں حروف کی تمام اقسام پائی جاتی ہیں۔ جن کی تفصیل اس طرح ہے۔ نمبر 1۔ مہموسہ : میں سے، الصاد، الکاف، الھائ، السین ‘ الحائ ! نصف تعداد موجود ہے۔ نمبر 2 مجہورہ میں سے : الالف، اللام، المیم، الراء، العین، الطائ، القاف، الیائ، النون، نصف تعداد موجود ہے۔ نمبر 3 شدیدہ میں سے : الالف، الکاف، الطائ، القاف، نصف تعداد میں موجود ہیں۔ نمبر 4 رخوہ میں سے : اللام، المیم، الرائ، الصاد، الھائ، العین، السین، الحائ، الیائ، النون : نصف موجود ہیں نمبر 5 مطبقہ میں سے : الصاد، الطائ، آدھے موجود ہیں۔ نمبر 6 منفتحہ میں سے : الالف، اللام، المیم، الرائ، الکاف، الھائ، العین، السین، الحائ، القاف، الیائ، النون، نصف پائے جاتے ہیں۔ نمبر 7 مستعلیہ میں سے : القاف، الصاد، الطائ، نصف پائے جاتے ہیں۔ نمبر 8 منخفضہ میں سے الالف، اللام، المیم، الرائ، الکاف، الھائ، الیائ، العین، السین، الحائ، النون، آدھے موجود ہیں۔ نمبر 9 قلقلہ میں سے القاف، الطائ، نصف تعداد موجود ہے۔ ان اجناس کی بقیہ اقسام میں ان حروف کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔ اور قاعدہ یہ ہے کہ کسی چیز کا اکثر اسکے کل کے قائم مقام شمار ہوتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اہل عرب پر ان حروف کو شمار کردیا جن پر انکا کلام مشتمل تھا (اور ان کو مقابلے کا چیلنج دیا مگر پھر بھی وہ مقابلے میں نہ آئے بلکہ عاجز ہوگئے) اور ان کو اس طرح لاجواب ومبہوت کردیا اور ان پر حجت قائم کردی (فھل من مبارز) پھر ان اسماء حروف کو الگ الگ سورتوں میں لایا گیا تاکہ جن کو چیلنج کیا گیا۔ بار بار اس کا اعادہ ہوتا رہے۔ اور ان کو متنبہ کیا جاتا رہے۔ اور یہ بات مختلف سورتوں میں لانے سے ہی حاصل ہوسکتی تھی، اکٹھا ذکر کرنے سے یہ مقصد اس طرح حاصل نہ ہوسکتا۔ غرضِ تکرار : جن الفاظ یاقصص کو قرآن مجید میں دھرایا گیا ان کے دھرانے سے یہی غرض ہے کہ وہ بات دل میں اچھی طرح جم جائے اور خوب پختہ ہوجائے ( اور چیلنج بھی تازہ رہے) طرز میں فرق کی وجہ : پھر ان حروف کو ایک طرز پر نہیں لایا گیا۔ بلکہ حروف کی تعداد میں فرق رکھا گیا۔ مثلًا صٓ، قٓ، نٓ، طٰہٰ ، طٰسٓ، یٰسٓں، حٰمٓ، الٓمٓ، الٓمٓرٰ ، طٰسٓمّٓ ، الٓمٓصٓ، الٓرٰ ، کٓھٰیٰعٓصٓ، حٰمٓ، عٓسٓقٓ، گویا کبھی تو ایک حرف لائے، کبھی دو ، دو کبھی تین، تین، کبھی چار، چار اور کبھی پانچ، پانچ۔ جس طرح کہ ان کے ہاں کلام کے مختلف انداز تھے۔ اور جیسا کہ کلمات کی بِنائیں ایک حرف، دو حرف اور تین اور چار اور پانچ حروف سے آتی ہیں۔ ابتداء میں طرز : شروع قرآن میں اس طرز کو اختیار کیا گیا کہ الٓمٓ جہاں بھی قرآن مجید میں واقع ہوا ہے۔ وہاں پوری آیت کے طور پر اس کو لایا گیا۔ اسی طرح الٓمٓصٓ کو ایک آیت کے طور پر لائے۔ مگر الٓمٓرٰ کو آیت شمار نہیں کیا گیا، اسی طرح الٓرٰ کو پانچ سورتوں میں آیت شمار نہیں کیا گیا۔ جبکہ طٰسٓم کو دونوں سورتوں میں پوری آیت کے طور پر شمار کیا۔ اسی طرح طٰہٰ ‘ یٰسٓ دونوں سورتوں میں دو آیتیں شمار کی جاتی ہیں۔ دوسری طرف صٓ، نٓ، قٓ، ان تینوں کو مستقل آیت کے طور پر شمار نہیں کیا جاتا۔ یہ علماء کوفہ کا مسلک ہے، یہ توقیفی علم ہے، اسمیں قیاس کا دخل نہیں جیسا کہ سورتوں کے نام ہیں، اسی لئے اس صورت میں تمام پر مکمل وقف کیا جائے گا کیونکہ ان کو مستقل معنیٰ پر محمول کیا جو ما بعد کا محتاج نہ رہا، اور یہ سورتوں کا نام نہ ماننے کی صورت میں ہے، بلکہ ان کو اسی طرح قرار دیا جائے جیسا کہ آوازوں کی تعبیرات ہیں یا پھر ان کو خبر قرار دے کر مبتداء کو محذوف مانا جائے جیسا کہ الٓمّٓ (آل عمران) یعنی ھذہ الٓمّٓ ۔ یہ الم ہے۔ پھر نیا کلام شروع کرتے ہوئے کہا اللّٰہ لا الہ الا ھو الحی القیوم : آل عمران : 2 : دوسرا قول : جنہوں نے ان کو سورتوں کے اسماء قرار دیا بقول ان کے انکا محل اعراب ہے۔ اس لئے کہ ان کے ہاں یہ دیگر تمام اسماء اعلام کی طرح ہونگے۔ ابتداء کی صورت میں مرفوع ہونگے، یا منصوب ومجرور بنیں گے۔ کیونکہ ان سے قسم اٹھانی درست ہے۔ پس یہ الفاظ لفظ اللہ کے قائم مقام ہونگے اللہ کا لفظ دونوں لغات کے ساتھ ہے۔ ایک اور قول : جنہوں نے ان کو سورتوں کے نام قرار نہیں دیا ان کے ہاں انکا کوئی محل اعراب نہیں۔ جیسا کہ جملہ ابتدا ئیہ اور مفرد ات عددیہ کا کوئی محل اعراب نہیں ہوتا۔ اسم اشارہ کی تذکیر : ذٰلِکَ الْکِتٰبُ : نمبر 1 : یعنی یہ وہی کتاب ہے جس کا وعدہ ان سے موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) کی زبان سے کیا گیا، یا ذٰلک کا مشارالیہ الٓمّٓ ہے۔ سوال : اسم اشارہ مذکر اور مشارالیہ مؤنث ہے اور وہ سورت ہے۔ جواب : کتاب اگرچہ خبر ہے مگر یہ اسی کے معنی میں ہے۔ اور دونوں کی مراد ایک ہے۔ اس لئے مذکر ہونے میں لفظ کتاب کا حکم سورت کے لفظ پر لگادیا، اور اگر یہ صفت ہے تو پھر اس سے صراحۃً کتاب کی طرف اشارہ کردیا۔ کیونکہ اسم اشارہ سے ایسی جنس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اس کی صفت ہے۔ محاورہ میں اس طرح کہتے ہیں۔ ھند ذٰلک الانسان اوذٰلک الشخص فعل کذا کہ ہند وہ انسان ہے ذٰلک کی صفت سے مراد الانسان ہے اور ذالک کا اشارہ ہند کی طرف ہے۔ حالانکہ ہند مؤنث ہے۔ المو اسم اشارہ کو ملانے کی وجہ : وجہ نمبر 1 : ذٰلک الکتاب کو الٓمّٓ کے ساتھ ملانے کی وجہ یہ ہے کہ اگر الٓمّٓ کو سورت کا نام قرار دیں تو الٓمّٓ مبتداہو گا۔ اور ذٰلک مبتداء دوم ہوگا۔ اور الکتاب اس کی خبر بنے گی، پھر جملہ مبتداء اول کی خبر ہوگی اور اس کا معنی یہ ہے کہ یہ وہی کتاب کامل ہے۔ گویا اس کے مقابلہ میں دوسری کتابیں ناقص ہیں۔ جیسا کہ کہتے ہیں۔ ھوالرجل یعنی رجولیت میں کامل وہی ہے۔ مردوں میں جتنی پسندیدہ خصلتیں ہوتی ہیں وہ سب اس میں جمع ہیں۔ نمبر 2: الٓمّٓ مبتداء محذوف کی خبر ہو یعنی : الٓمّٓ ایک جملہ ہے اور ذٰلک الکتاب دوسرا جملہ ہے۔ نمبر 3: اگر تم الٓمّٓ کو بمنزلہ اسم صوت کے قرار دو ۔ تو پھر الٓمّٓ مبتدا اور الکتاب اس کی خبر ہوگی۔ یعنی وہ اتاری ہوئی کتاب وہی کتاب کامل ہے۔ ریب کا مفہوم و معنی : لَارَیْبَ : (اس میں شک نہیں) : یہ مصدر ہے رأب کا جب کسی چیز میں شک ہو۔ الریب کی حقیقت : نفس کا قلق و اضطراب۔ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے۔ ” دع ما یریبک الی ما لا یریبک “ جو چیز تمہیں اضطراب میں ڈالے اس کو ایسی چیز کے لیے چھوڑ دے جو تمہیں اضطراب میں نہ ڈالے، پس شک اضطراب ہے۔ سچائی اطمینان ہے۔ (احمد، ترمذی) کسی کام کا مشکوک ہونا یہی ہے کہ جس کے لیے نفس میں قلق ہو اور دل میں قرار نہ آئے۔ اور کسی کام کا سچا ہونا یہی ہے کہ اس میں دل مطمئن ہوتا اور سکون اختیار کرتا ہے۔ ” ریب زمان “ کا لفظ اسی سے ہے، اور اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو نفوس کو قلق میں مبتلا کردیں۔ اور ان کے مصائب کی تشخیص دلوں سے ہو۔ اب آیت میں ریب کی نفی بطور استغراق کے ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس میں شک کیا۔ قرآن کے متعلق اس بات کی نفی کی گئی ہے، کہ اس کا شک سے تعلق نہیں۔ اور نہ یہ شک کا مقام ہے۔ کیونکہ اس کی دلالتیں اور براہین اس طرح روشن ہیں کہ شک کرنے والے کو اس میں پڑنا مناسب نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ کوئی آدمی اس میں شک نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے لافیہ ریب “ نہیں فرمایا، جیسا کہ فرمان “۔ لافیھا غول الصافات آیت نمبر 47 لفظ ریب کے ساتھ حرف نفی لایا گیا کہ ریب کی قرآن سے نفی کی اور یہ ثابت کیا کہ قرآن برحق ہے باطل نہیں۔ جیسا کہ کفار گمان کرتے تھے۔ اگر ظرف کے قریب لایا جاتا تو اس مقصد سے وہ دور ہوجاتا وہ اس طرح کہ کوئی اور کتاب ہے جس میں شک ہے۔ مگر اس میں شک نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ” لا فیھا غول “ الصافات آیت نمبر 47 جنت کی شراب دنیا کی شرابوں پر فضیلت رکھتی ہے۔ اس طرح کہ وہ عقول کو خراب نہیں کرے گی، جس طرح کہ دنیا کی شراب خراب کرتی ہے۔ وقف کے متعلق مشہور قول : یہ ہے حضرت نافع وعاصم رحمہما اللہ نے لاریب پر وقف کیا۔ اس صورت میں وقف کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خبر کی نیت کرے۔ تقدیر عبارت اس طرح ہوگی۔ لَارَیْبَ فِیْہِ ۔ “ اس میں شک نہیں “ فِیْہِ ھُدًی : فیہ میں ابن کثیر مکی (رح) کے نزدیک ہر ھٓا اشباع کی ہے۔ حفص (رح) نے اس آیت فیہ مھانا (الفرقان آیت نمبر 69) میں ان کی موافقت کی ہے اور یہی اصل ہے۔ جیسا کہ کہیں۔ مررت بہ ومن عندہ وفی دارہ) M : جس طرح فی دارہ اور من عندہٗ نہیں کہا جاتا اس طرح ضروری ہے کہ ” فیہ “ بھی نہ کہا جائے۔ جواب : سیبویہ (رح) نے فرمایا۔ جو انہوں نے کہا ہے (اگر اس کو مان لیں تو) تو تین حروف ساکنہ کا جمع کرنا لازم آتا ہے۔ ھا سے قبل یا اور خود ھآئ۔ کیونکہ اہل عرب کے ہاں ھا متحرک بھی بمنزلہ ساکن کے ہے۔ کیونکہ ھا حروف خفیہ میں سے ہے اور حرف خفی ساکن کے قریب ہے۔ اور یا اس کے بعد (دوسرے نمبر پر ہے) تو اشباع ساقط ہوجائیگا۔ ھدی : یہ فعل کا مصدر ہے جیسا کہ بکـٰی کا لفظ۔ تعریف ِہدایت : مقصد تک پہنچانے والی دلالت۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے مقابلے میں ضلالت کا لفظ آیا ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں اُولٰٓپکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَۃَ بِالْھُدٰی (البقرہ آیت نمبر 16) فرمایا گیا “ ہدی للمتقین “ متقی۔ ہدایت یافتہ کو کہتے ہیں یہ اس طرح ہے جیسا کہ کہتے ہیں عزیز کو العزیز المکرم یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو عزت دے اور مکرم بنائے۔ اصل مقصود اس سے جو چیز اس میں پائی جاتی ہے یعنی عزت اس میں اس کا برقرار رہنا اور ہمیشگی طلب کی گئی ہے۔ جیسا کہ ” اھدنا الصراط المستقیم “ (الفاتحہ آیت نمبر 6) میں ہے۔ (کہ تو ہمیں ہدایت سے ہمیشہ وابستہ رکھ) اللہ تعالیٰ نے عنقریب متقی بننے والے کو متقین کا لباس زیب تن کرنے کی وجہ سے متقی فرما دیا۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : من قتل قتیلا فلہ سلبہ (بخاری ومسلم) اس ارشاد میں عنقریب قتل ہونے والے کو قتیل فرما دیا بوجہ الباس قتل کے۔ اور حضرت ابن عباس۔ کا ارشاد ہے اذا اراد احد کم الحج فلیعجل فانہ یمرض المریض عنقریب قتل ہونے والے کو اور بیمار ہونے والے کو قتیل اور مریض فرمایا۔ عنوان کا فرق : یہاں ھدی للضالین نہیں فرمایا۔ کیونکہ ان کے دو گروہ ہیں۔ نمبر 1: جن کا گمراہی پر قائم رہنا معلوم ہے۔ نمبر 2: جن کا انجام بالآخر ہدایت ہے۔ اور قرآن مجید اسی فریق ثانی کے لیے ہادی ہے۔ پس یہ عبارت کافی ہے۔ اگر اس سے زیادہ تفصیلی عبارت لائی جاتی تو یوں فرماتے، یہ ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو گمراہی کے بعد ہدایت کی طرف جانے والے ہیں، “ پس کلام کو اس طریق سے مختصر لائے، جس کا ہم نے تذکرہ کردیا۔ (عنقریب متقی بننے والے کو متقی کہہ دیا) نمبر 2: یہ بھی کہا گیا کہ ھدی للمتقین لائے حالانکہ یہ اس سورت کی ابتداء ہے۔ جو زہراوین میں سے ایک ہے۔ اور قرآن مجید کی چوٹی اور کوہان ہے۔ گویا ابتداء سورت اپنے اولیاء متقی بندوں کے ذکر سے فرمائی۔ المتقی۔ : یہ اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ اور عرب کا قول ہے وقاہ فاتقی۔ اس کا فا کلمہ وائو ہے اور لام کلمہ یا ہے۔ جب اس سے باب افتعال بنایا تو وائو کو تا کر کے تا میں ادغام کردیا۔ اتقٰی بن گیا۔ الوقایہ۔ پیش بندی۔ حفاظت کرنا۔ شریعت میں اس کا معنی کسی ایسے کام میں اپنے آپ کو مبتلا کرنے سے بچانا۔ جس کے کرنے یا چھوڑنے سے سزا کا مستحق ہو۔ تراکیب : ترکیب 1: ہدی کا لفظ محلاً مرفوع ہے کیونکہ یہ مبتداء محذوف کی خبر ہے۔ ترکیب 2: ذلک کی خبر ہے لاریب فیہ کے ساتھ مل کر ترکیب 3: فیہ کی ھاؔ ذوالحال اور ھدی حال ہے۔ ترکیب 4: بلاغت کے اعتبار سے زیادہ پختہ بات یہ ہے کہ الٓمّٓ بذات خودمکمل جملہ ہے یا حروف معجمہ کا مجموعہ ہے جو مستقل بنفسہٖ ہے۔ ذلک الکتاب یہ دوسرا جملہ ہے لا ریب فیہ تیسرا جملہ ہے۔ اور ھدی للمتقین چوتھا جملہ ہے۔ انوکھا انداز بلاغت : پھر اپنی ترتیب میں اس نے بلاغت کا انوکھا انداز پیدا کیا کہ حروف عطف کے بغیر ان کو اس شاندار ترتیب سے لایا گیا کہ ایک کی گردن گویا دوسرے سے ملی ہوئی ہے، دوسرا پہلے کے ساتھ معانقہ کرتے ہوئے مل رہا ہے اسی طرح تیسرا اور چوتھا۔ اس کی وضاحت اس طرح ہے اوّلا متنبہ کیا کہ یہ وہ کلام ہے جس سے چیلنج دیا گیا پھر اشارہ فرمایا کہ یہ انتہائی کمال والی قابل تعریف کتاب ہے تو اس سے چیلنج والی جانب کو پختہ کردیا۔ پھر نفی کی کہ شک کی کسی جانب بھی اس کے ساتھ ذرہ بھر بھی مشابہت نہیں پائی جاتی۔ پس یہ بات اس کے کمال کی شہادت ودستاویز بن گئی کیونکہ حق و یقین والا کمال سب سے بالاتر اور کامل ہے۔ جس طرح باطل و اشتباہ سے بڑھ کر کوئی نقص وعیب نہیں۔ ایک عالم کو کہا گیا کہ۔ تیری لذت کس بات میں ہے ؟ اس نے کہا ایسی دلیل میں جو وضاحت میں نزاکت کی چال چلے۔ اور ایسے اشتباہ میں جو رسوائی سے نڈھال کر دے۔ پھر خبردی کہ یہ متقین کے لیے ہدایت ہے۔ پھر اس کا یقین ہونا اس طرح پختہ کردیا کہ شک اس کی گرد کو بھی نہیں پاسکتا۔ اور وہ ایسا حق ہے کہ باطل اس کے سامنے اور پیچھے کسی طرف سے نہیں آسکتا۔ پھر اس گہری ترتیب اور عمدہ تنسیق کے ساتھ ساتھ چاروں میں سے کوئی ایک جملہ بھی ایک عظیم الشان نکتہ سے خالی نہیں۔ نکتہ عظیمہ : اول جملہ میں حذف اور مطلوب کی طرف لطیف انداز سے اشارہ ہے۔ جبکہ دوسرے جملہ کے معرفہ میں قابل دید عظمت ہے۔ اور تیسرے جملہ میں ریب کے لفظ کو ظرف پر مقدم کیا کیا ٹھاٹھ ہے (پیچھے ذکر ہوا) اور چوتھے جملہ میں حذف ہے۔ اور ھدًی مصدر کو اسم فاعل کے مقام پر لایا گیا۔ گویا ہادی بنفس نفیس ہدایت ہے۔ پھر اس کو نکرہ لائے۔ اس میں یہ بتلادیا کہ یہ ایسی ہدایت ہے جس کی حقیقت کو پہنچا نہیں جاسکتا۔ اور متقین کا تذکرہ مختصر انداز میں کرلیا جیسے پہلے گزرا۔ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ کی تفسیر : الذین۔ نحو : نمبر 1 : یہ محلًا مرفوع ہے۔ نمبر 2: صفت کی صورت میں محل نصب میں ہے یعنی ھُمُ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ ۔ وہی جو ایمان رکھتے ہیں یا میری مراد الذین یومنون وہ ایمان والے ہیں۔ نمبر 3: الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ مبتداء اور اس کی خبراولٰٓپکَ عَلٰی ھُدًی۔ نمبر 4: یہ مجرور ہے اس طرح کہ متقین کی صفت ہے۔ یہ صفت متقین کی صفت کو کھولنے اور واضح کرنے کے لئے لائی گئی ہے۔ جیسے کہتے ہیں۔ زید الفقیہ المحقق۔ کیونکہ یہ اس چیز پر مشتمل ہے جس پر نیکیوں کی جڑ ہے۔ اور وہ نماز اور صدقہ ہے یہ دونوں بنیادی عبادات مالیہ اور بدنیہ کی جزء ہیں۔ (الصلٰوۃ عماد الدین) نماز کو دین کا ستون قرار دیا۔ (اور دوسری روایت میں) کفر واسلام کے درمیان فاصل نماز کا چھوڑ دینا قرار دیا گیا۔ اور زکوٰۃ کو اسلام کا پل فرمایا۔ (الزکوۃ قنطرۃ الاسلام) گویا ان کا مقام و مرتبہ ایسا ہے کہ تمام عبادات ان کے تابع ہیں۔ اسی لیے تو کلام کو مختصر فرمایا اور طاعات کے تذکرہ میں فقط عنوان پر اکتفا کیا اور اسکے ساتھ ساتھ ان دونوں عبادتوں کی فضیلت کو کھول دیا۔ نمبر 5: یا یہ صفت ہے جو متقین کے ساتھ لائی گئی جو مزید فائدہ کے لیے لائی گئی ہے مثلًا زید الفقیہ المتکلم الطبیب۔ اس صورت میں متقین سے مراد وہ لوگ ہونگے جو برائیوں سے گریزاں ہیں۔ یُؤْمِنُوْنَ : (تصدیق کرتے ہیں) نحو : یہ امن مصدر سے باب افعال ہے۔ اور محاورہ ہے۔ امنت ” یعنی اس کی تصدیق کی اس کی حقیقت تکذیب و مخالفت سے امن میں ہونا ہے۔ باء سے یہ متعدی ہے۔ اس لیے کہ یہ اقرار واعتراف کے معنی کو اپنے اندر شامل کرنے والا ہے۔ بِالْغَیْبِ : (جوان سے پوشیدہ ہیں) ان چیزوں میں سے جن کی خبران کو نبی اکرم ﷺ نے دی۔ نمبر 1: مثلاً بعث ونشر اور حساب وغیرہ کے معاملات (جو کہ غائب کے مفہوم میں ہیں) پس مصدر بمعنی اسم فاعل (غائب) لائے۔ جیسا کہتے ہیں۔ غاب الشیء غیبا۔ یہ اس صورت میں ہے جب تم اس کو یؤمنون کا صلہ بنائو۔ نمبر 2: اور اگر تم اس کو حال قرار دو ۔ تو پھر یہ پوشیدگی اور خفاء کے معنی میں ہوگا۔ یعنی وہ ایمان لاتے ہیں۔ اس حال میں کہ جس چیز پر ایمان لانا ہے۔ وہ ان سے غائب ہے۔ (مثلًا رسول اللہ وبعث وحشر کو دیکھا نہیں مگر ایمان لاتے ہیں) حقیقی طور پر یہ عبارت اس طرح ہے۔ متلبسین بالغیب یعنی غیب سے تلبس حاصل کرنے والے ہیں۔ صحیح ایمان یہ ہے کہ زبان سے اقرار کرے اور دل سے تصدیق کرے۔ عمل (حقیقت) ایمان میں داخل نہیں (البتہ ایمان کی علامت وثمرہ ضرور ہے) اقامت کا مطلب : وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ : (یعنی اس کو ادا کرتے ہیں) نمبر 1: ادائیگی کو اقامت سے تعبیر کیا۔ حالانکہ قیام تو اس کا ایک رکن ہے۔ یہ اس طرح ہے جیسا کہ نماز کو قنوت سے تعبیر کیا۔ اور قنوت قیام ہی کو کہتے ہیں۔ رکوع اور سجود اور تسبیح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں نماز میں پائی جاتی ہیں۔ نمبر 2: یا اقامت صلوۃ سے مراد تعدیل ارکان ہے۔ یہ ” اقام العود “ سے ہے جب لکڑی کو سیدھا کردیں۔ نمبر 3: یا نماز پر مداومت اور محافظت مراد ہے۔ پھر یہ۔” قامت السوق “ سے بنا ہے۔ جب بازار پر رونق ہوجائے۔ کیونکہ جب کسی چیز کی حفاظت کی جاتی ہے تو پھر وہ چالو مال کی طرح بن جاتی ہے۔ جس کی طرف رغبتیں متوجہ ہوتی ہیں۔ اور جب کسی چیز کو ضائع کیا جائے تو وہ اس کھوٹی اور نکمی چیز کی طرح ہے جس کی طرف طبیعت کی رغبت نہیں ہوتی۔ معنی صلوٰۃ : اَلصَّلٰوۃَ ۔ نحو : الصلوٰۃ کا لفظ فعلۃ کے وزن پر صلّی سے بنا ہے جیسا کہ الزکوٰۃ کا لفظ زکی سے۔ اور وائو کیساتھ اس کی کتابت بطور تفخیم کے ہے۔ صلّی کا حقیقی معنی چوتڑوں کو حرکت دینا ہے۔ کیونکہ نمازی رکوع و سجود میں ان کو حرکت دیتا ہے۔ داعی (دعوت دینے والا) کو بھی مصل (بلانے والا) کہا جاتا ہے رکوع و سجدہ کرنے والے کے ساتھ خشوع میں مشابہت کی وجہ سے اس کو۔” مصل “ کہا جاتا ہے۔ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ : (جو ہم نے ان کو دے رکھا ہے) یہاں ما بمعنی الذی ہے۔ انفاق سے مراد : یُنْفِقُوْنَ : (وہ اس میں سے کچھ خرچ کرتے ہیں) صدقہ کرتے ہیں۔ من تبعیضیہ داخل کرکے ممنوع فضول خرچی سے محفوظ کردیا۔ مفعول کو اس کی اہمیت پر دلالت کرنے کیلئے مقدم کیا۔ نمبر 1: مراد یہاں زکوٰۃ ہے، کیونکہ یہ اس صدقہ سے ملی ہوئی ہے جو کہ زکوٰۃ کی ہمدم ہے۔ نمبر 2: یا۔ زکوٰۃ سے مراد زکاۃ اور اسی طرح کے خرچہ جات ہوں جو بھلائی کے راستہ میں کئے ہیں کیونکہ یہاں زکوٰۃ کا لفظ بلا کسی قید کے آیا ہے۔ اور انفق الشیء اور انفدہ یہ دونوں ایک ہی معنی رکھتے ہیں جیسا کہ نفق الشیء اور نفد۔ چیز کا خرچ ہونا ختم ہونا کے معنی میں آتے ہیں۔ قاعدہ : ہر وہ لفظ جس کا فاء کلمہ نون ہو اور عین کلمہ فاء ہو وہ نکلنے اور چلے جانے کے معنی میں آتا ہے۔ نکتہ : اس آیت سے بطور دلالت یہ بات ثابت ہوگئی۔ کہ اعمال ایمان کا حصہ نہیں وہ اس لیے کہ یہاں صلوٰۃ و زکوٰۃ کو ایمان پر عطف کر کے ذکر کیا گیا۔ اور عطف مغایرت کو چاہتا ہے۔
Top