Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم
: الف لام میم
الم
حروفِ مقطعات کی بحث : الٓمّٓ: الٓمّٓ اور اسکے ہم مثل حروف مقطعات حقیقت میں ایسے اسماء ہیں جن کے مصداق وہ حروف تہجی ہیں جن سے مل کر کلمات بنتے ہیں۔ پس الف قال کے درمیان والے حرف پر دلالت کرتا ہے۔ اور لام اسکے آخری حرف پر دلالت کررہا ہے اور ان کے مشابہہ حروف کا یہی حال ہے۔ اسمیت کے دلائل : پہلی دلیل یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے ذاتی معنی پر دلالت کرتا ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ امالہ، تفخیم، تعریف وتنکیر (معرفہ ونکرہ ہونا) اسی طرح جمع اور تصغیر سے ان میں تبدیلی کی جاتی ہے۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ نحوی حیثیت میں یہ معرب ہیں، البتہ ان میں سکون زَیْد وغیرہ اسماء کی طرح ہے۔ کہ اعراب کا مقتضی موجود نہ ہونے کی وجہ سے اعراب نہیں آسکتا۔ بعض نے ان کو مبنی کہا ہے۔ اس لئے کہ یہ اصوات کی طرح ہیں۔ مثلًا غاق۔ یہ کوے کی آواز کی حکایت ہے۔ جمہور علماء کا قول : یہ ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں۔ قول ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما : ان حروف سے اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ قول ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ : یہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہیں۔ بعض کا قول : یہ ان متشابہات میں سے ہیں۔ جن کی تاویل سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ اور ان کو معجم ان کے ابہام واخفاء کی وجہ سے ہی کہا جاتا ہے۔ بعض دوسروں کا قول : یہ اسماء ہیں جن کو شروع میں بطور تعدید کے لایا گیا ہے۔ گویا کہ قرآن مجید نے جن کو چیلنج کیا تھا ان کو قرآن بیدار کر رہا ہے۔ اور آمادہ کر رہا ہے کہ وہ اس نازل شدہ وحی پر غور کریں جس کا مقابلہ کرنے سے وہ اول سے آخر تک عاجز آچکے۔ جبکہ اس کلام کے موتی ان کلمات سے ہی پروئے گئے ہیں جن سے انکا اپناکلام بنتا ہے۔ تاکہ یہ غور و فکر ان کو اس پر یقین لانے کی طرف آمادہ کرے۔ اگر اب تک انہوں نے اپنا سر اسکے سامنے سرنگوں نہیں کیا۔ اور بار بار رجوع کے باوجود ان کو اپنی عاجزی ظاہر نہیں ہوئی۔ حالانکہ وہ کلام کے ماہرین ہیں۔ (تاکہ اب بھی جاگ کر اپنی عاجزی مان لیں) کیونکہ یہ تمام باتیں ثابت کر رہی ہیں کہ یہ کلام بشر نہیں بلکہ خالق اور قادر مطلق کا کلام ہے۔ نصیب والوں کے لئے تو یہ بات بڑا مقام رکھتی ہے۔ (آئو اور اپنا نصیبہ آزمائو) دیگر بعض کا قول : یہ ہے کہ ان سے سورتوں کو اس لئے شروع کیا گیا۔ تاکہ سب سے پہلے جو چیز سامع کے کانوں کو کھٹکھٹائے وہ ایک انوکھا انداز کلام ہو۔ جو دلائل اعجاز کیلئے ایک مقدمے کا کام دے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حروف کے ذریعہ عمدہ اور نفیس کلام کرنے میں تمام عرب برابر تھے۔ خواہ ان پڑھ طبقہ ہو یا پڑھا لکھا طبقہ ہو۔ البتہ : حروف کے اسماء کو وہ لوگ استعمال کرتے تھے۔ جنہوں نے خود پڑھنا لکھنا سیکھایا اہل کتاب سے انکا میل جول تھا اور ان سے انہوں نے سیکھ لیا تھا۔ کسی امی کا ان اسماء حروف سے کلام کرنا اس طرح بعید تر تھا جس طرح کسی امی کا بغیر پڑھے لکھنا اور تلاوت کرنا۔ پس آپ ﷺ کا ان اسماء کو اپنے کلام میں استعمال کرنا۔ باوجود یکہ یہ بات مشہور و معروف تھی کہ آپ ﷺ نے اہل کتاب کے کسی بھی فرد سے کوئی چیز بھی حاصل نہیں کی۔ (یہ استعمال) وہی حکم رکھتا ہے جو ان واقعات وقصص کے بیان کرنے کا تھا جن سے قریش وغیرہ پہلے سے ناواقف تھے۔ اس سے تو یہ بات خود ثابت ہوگئی کہ یہ سب آپ کو وحی الٰہی سے حاصل ہوا۔ جو آپ کی نبوت کی واضح شہادت ہے۔ دلیل اعجاز کا دوسرا انداز : یہ بات معلوم ہے۔ کہ ابتداء میں جو حروف وارد ہوئے ہیں۔ ان میں نصف تو حروف معجمہ کے اسماء ہیں جو درج ذیل ہیں۔ الالف، اللام، المیم، الصاد، الرائ، الکاف، الھائ، الیائ، العین، الطائ، السین، الحائ، القاف، النون۔ تعدادِ حروف : حروف معجمہ کی تعداد انتیس ہے، اور مذکورہ بالا حروف انتیس سورتوں کے شروع میں آئے ہیں۔ پھر ایک اور لطیفہ یہ ہے کہ ان پائے جانے والے حروف میں حروف کی تمام اقسام پائی جاتی ہیں۔ جن کی تفصیل اس طرح ہے۔ نمبر 1۔ مہموسہ : میں سے، الصاد، الکاف، الھائ، السین ‘ الحائ ! نصف تعداد موجود ہے۔ نمبر 2 مجہورہ میں سے : الالف، اللام، المیم، الراء، العین، الطائ، القاف، الیائ، النون، نصف تعداد موجود ہے۔ نمبر 3 شدیدہ میں سے : الالف، الکاف، الطائ، القاف، نصف تعداد میں موجود ہیں۔ نمبر 4 رخوہ میں سے : اللام، المیم، الرائ، الصاد، الھائ، العین، السین، الحائ، الیائ، النون : نصف موجود ہیں نمبر 5 مطبقہ میں سے : الصاد، الطائ، آدھے موجود ہیں۔ نمبر 6 منفتحہ میں سے : الالف، اللام، المیم، الرائ، الکاف، الھائ، العین، السین، الحائ، القاف، الیائ، النون، نصف پائے جاتے ہیں۔ نمبر 7 مستعلیہ میں سے : القاف، الصاد، الطائ، نصف پائے جاتے ہیں۔ نمبر 8 منخفضہ میں سے الالف، اللام، المیم، الرائ، الکاف، الھائ، الیائ، العین، السین، الحائ، النون، آدھے موجود ہیں۔ نمبر 9 قلقلہ میں سے القاف، الطائ، نصف تعداد موجود ہے۔ ان اجناس کی بقیہ اقسام میں ان حروف کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔ اور قاعدہ یہ ہے کہ کسی چیز کا اکثر اسکے کل کے قائم مقام شمار ہوتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اہل عرب پر ان حروف کو شمار کردیا جن پر انکا کلام مشتمل تھا (اور ان کو مقابلے کا چیلنج دیا مگر پھر بھی وہ مقابلے میں نہ آئے بلکہ عاجز ہوگئے) اور ان کو اس طرح لاجواب ومبہوت کردیا اور ان پر حجت قائم کردی (فھل من مبارز) پھر ان اسماء حروف کو الگ الگ سورتوں میں لایا گیا تاکہ جن کو چیلنج کیا گیا۔ بار بار اس کا اعادہ ہوتا رہے۔ اور ان کو متنبہ کیا جاتا رہے۔ اور یہ بات مختلف سورتوں میں لانے سے ہی حاصل ہوسکتی تھی، اکٹھا ذکر کرنے سے یہ مقصد اس طرح حاصل نہ ہوسکتا۔ غرضِ تکرار : جن الفاظ یاقصص کو قرآن مجید میں دھرایا گیا ان کے دھرانے سے یہی غرض ہے کہ وہ بات دل میں اچھی طرح جم جائے اور خوب پختہ ہوجائے ( اور چیلنج بھی تازہ رہے) طرز میں فرق کی وجہ : پھر ان حروف کو ایک طرز پر نہیں لایا گیا۔ بلکہ حروف کی تعداد میں فرق رکھا گیا۔ مثلًا صٓ، قٓ، نٓ، طٰہٰ ، طٰسٓ، یٰسٓں، حٰمٓ، الٓمٓ، الٓمٓرٰ ، طٰسٓمّٓ ، الٓمٓصٓ، الٓرٰ ، کٓھٰیٰعٓصٓ، حٰمٓ، عٓسٓقٓ، گویا کبھی تو ایک حرف لائے، کبھی دو ، دو کبھی تین، تین، کبھی چار، چار اور کبھی پانچ، پانچ۔ جس طرح کہ ان کے ہاں کلام کے مختلف انداز تھے۔ اور جیسا کہ کلمات کی بِنائیں ایک حرف، دو حرف اور تین اور چار اور پانچ حروف سے آتی ہیں۔ ابتداء میں طرز : شروع قرآن میں اس طرز کو اختیار کیا گیا کہ الٓمٓ جہاں بھی قرآن مجید میں واقع ہوا ہے۔ وہاں پوری آیت کے طور پر اس کو لایا گیا۔ اسی طرح الٓمٓصٓ کو ایک آیت کے طور پر لائے۔ مگر الٓمٓرٰ کو آیت شمار نہیں کیا گیا، اسی طرح الٓرٰ کو پانچ سورتوں میں آیت شمار نہیں کیا گیا۔ جبکہ طٰسٓم کو دونوں سورتوں میں پوری آیت کے طور پر شمار کیا۔ اسی طرح طٰہٰ ‘ یٰسٓ دونوں سورتوں میں دو آیتیں شمار کی جاتی ہیں۔ دوسری طرف صٓ، نٓ، قٓ، ان تینوں کو مستقل آیت کے طور پر شمار نہیں کیا جاتا۔ یہ علماء کوفہ کا مسلک ہے، یہ توقیفی علم ہے، اسمیں قیاس کا دخل نہیں جیسا کہ سورتوں کے نام ہیں، اسی لئے اس صورت میں تمام پر مکمل وقف کیا جائے گا کیونکہ ان کو مستقل معنیٰ پر محمول کیا جو ما بعد کا محتاج نہ رہا، اور یہ سورتوں کا نام نہ ماننے کی صورت میں ہے، بلکہ ان کو اسی طرح قرار دیا جائے جیسا کہ آوازوں کی تعبیرات ہیں یا پھر ان کو خبر قرار دے کر مبتداء کو محذوف مانا جائے جیسا کہ الٓمّٓ (آل عمران) یعنی ھذہ الٓمّٓ ۔ یہ الم ہے۔ پھر نیا کلام شروع کرتے ہوئے کہا اللّٰہ لا الہ الا ھو الحی القیوم : آل عمران : 2 : دوسرا قول : جنہوں نے ان کو سورتوں کے اسماء قرار دیا بقول ان کے انکا محل اعراب ہے۔ اس لئے کہ ان کے ہاں یہ دیگر تمام اسماء اعلام کی طرح ہونگے۔ ابتداء کی صورت میں مرفوع ہونگے، یا منصوب ومجرور بنیں گے۔ کیونکہ ان سے قسم اٹھانی درست ہے۔ پس یہ الفاظ لفظ اللہ کے قائم مقام ہونگے اللہ کا لفظ دونوں لغات کے ساتھ ہے۔ ایک اور قول : جنہوں نے ان کو سورتوں کے نام قرار نہیں دیا ان کے ہاں انکا کوئی محل اعراب نہیں۔ جیسا کہ جملہ ابتدا ئیہ اور مفرد ات عددیہ کا کوئی محل اعراب نہیں ہوتا۔ اسم اشارہ کی تذکیر : ذٰلِکَ الْکِتٰبُ : نمبر 1 : یعنی یہ وہی کتاب ہے جس کا وعدہ ان سے موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) کی زبان سے کیا گیا، یا ذٰلک کا مشارالیہ الٓمّٓ ہے۔ سوال : اسم اشارہ مذکر اور مشارالیہ مؤنث ہے اور وہ سورت ہے۔ جواب : کتاب اگرچہ خبر ہے مگر یہ اسی کے معنی میں ہے۔ اور دونوں کی مراد ایک ہے۔ اس لئے مذکر ہونے میں لفظ کتاب کا حکم سورت کے لفظ پر لگادیا، اور اگر یہ صفت ہے تو پھر اس سے صراحۃً کتاب کی طرف اشارہ کردیا۔ کیونکہ اسم اشارہ سے ایسی جنس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اس کی صفت ہے۔ محاورہ میں اس طرح کہتے ہیں۔ ھند ذٰلک الانسان اوذٰلک الشخص فعل کذا کہ ہند وہ انسان ہے ذٰلک کی صفت سے مراد الانسان ہے اور ذالک کا اشارہ ہند کی طرف ہے۔ حالانکہ ہند مؤنث ہے۔ المو اسم اشارہ کو ملانے کی وجہ : وجہ نمبر 1 : ذٰلک الکتاب کو الٓمّٓ کے ساتھ ملانے کی وجہ یہ ہے کہ اگر الٓمّٓ کو سورت کا نام قرار دیں تو الٓمّٓ مبتداہو گا۔ اور ذٰلک مبتداء دوم ہوگا۔ اور الکتاب اس کی خبر بنے گی، پھر جملہ مبتداء اول کی خبر ہوگی اور اس کا معنی یہ ہے کہ یہ وہی کتاب کامل ہے۔ گویا اس کے مقابلہ میں دوسری کتابیں ناقص ہیں۔ جیسا کہ کہتے ہیں۔ ھوالرجل یعنی رجولیت میں کامل وہی ہے۔ مردوں میں جتنی پسندیدہ خصلتیں ہوتی ہیں وہ سب اس میں جمع ہیں۔ نمبر 2: الٓمّٓ مبتداء محذوف کی خبر ہو یعنی : الٓمّٓ ایک جملہ ہے اور ذٰلک الکتاب دوسرا جملہ ہے۔ نمبر 3: اگر تم الٓمّٓ کو بمنزلہ اسم صوت کے قرار دو ۔ تو پھر الٓمّٓ مبتدا اور الکتاب اس کی خبر ہوگی۔ یعنی وہ اتاری ہوئی کتاب وہی کتاب کامل ہے۔ ریب کا مفہوم و معنی : لَارَیْبَ : (اس میں شک نہیں) : یہ مصدر ہے رأب کا جب کسی چیز میں شک ہو۔ الریب کی حقیقت : نفس کا قلق و اضطراب۔ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے۔ ” دع ما یریبک الی ما لا یریبک “ جو چیز تمہیں اضطراب میں ڈالے اس کو ایسی چیز کے لیے چھوڑ دے جو تمہیں اضطراب میں نہ ڈالے، پس شک اضطراب ہے۔ سچائی اطمینان ہے۔ (احمد، ترمذی) کسی کام کا مشکوک ہونا یہی ہے کہ جس کے لیے نفس میں قلق ہو اور دل میں قرار نہ آئے۔ اور کسی کام کا سچا ہونا یہی ہے کہ اس میں دل مطمئن ہوتا اور سکون اختیار کرتا ہے۔ ” ریب زمان “ کا لفظ اسی سے ہے، اور اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو نفوس کو قلق میں مبتلا کردیں۔ اور ان کے مصائب کی تشخیص دلوں سے ہو۔ اب آیت میں ریب کی نفی بطور استغراق کے ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس میں شک کیا۔ قرآن کے متعلق اس بات کی نفی کی گئی ہے، کہ اس کا شک سے تعلق نہیں۔ اور نہ یہ شک کا مقام ہے۔ کیونکہ اس کی دلالتیں اور براہین اس طرح روشن ہیں کہ شک کرنے والے کو اس میں پڑنا مناسب نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ کوئی آدمی اس میں شک نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے لافیہ ریب “ نہیں فرمایا، جیسا کہ فرمان “۔ لافیھا غول الصافات آیت نمبر 47 لفظ ریب کے ساتھ حرف نفی لایا گیا کہ ریب کی قرآن سے نفی کی اور یہ ثابت کیا کہ قرآن برحق ہے باطل نہیں۔ جیسا کہ کفار گمان کرتے تھے۔ اگر ظرف کے قریب لایا جاتا تو اس مقصد سے وہ دور ہوجاتا وہ اس طرح کہ کوئی اور کتاب ہے جس میں شک ہے۔ مگر اس میں شک نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ” لا فیھا غول “ الصافات آیت نمبر 47 جنت کی شراب دنیا کی شرابوں پر فضیلت رکھتی ہے۔ اس طرح کہ وہ عقول کو خراب نہیں کرے گی، جس طرح کہ دنیا کی شراب خراب کرتی ہے۔ وقف کے متعلق مشہور قول : یہ ہے حضرت نافع وعاصم رحمہما اللہ نے لاریب پر وقف کیا۔ اس صورت میں وقف کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خبر کی نیت کرے۔ تقدیر عبارت اس طرح ہوگی۔ لَارَیْبَ فِیْہِ ۔ “ اس میں شک نہیں “ فِیْہِ ھُدًی : فیہ میں ابن کثیر مکی (رح) کے نزدیک ہر ھٓا اشباع کی ہے۔ حفص (رح) نے اس آیت فیہ مھانا (الفرقان آیت نمبر 69) میں ان کی موافقت کی ہے اور یہی اصل ہے۔ جیسا کہ کہیں۔ مررت بہ ومن عندہ وفی دارہ) M : جس طرح فی دارہ اور من عندہٗ نہیں کہا جاتا اس طرح ضروری ہے کہ ” فیہ “ بھی نہ کہا جائے۔ جواب : سیبویہ (رح) نے فرمایا۔ جو انہوں نے کہا ہے (اگر اس کو مان لیں تو) تو تین حروف ساکنہ کا جمع کرنا لازم آتا ہے۔ ھا سے قبل یا اور خود ھآئ۔ کیونکہ اہل عرب کے ہاں ھا متحرک بھی بمنزلہ ساکن کے ہے۔ کیونکہ ھا حروف خفیہ میں سے ہے اور حرف خفی ساکن کے قریب ہے۔ اور یا اس کے بعد (دوسرے نمبر پر ہے) تو اشباع ساقط ہوجائیگا۔ ھدی : یہ فعل کا مصدر ہے جیسا کہ بکـٰی کا لفظ۔ تعریف ِہدایت : مقصد تک پہنچانے والی دلالت۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے مقابلے میں ضلالت کا لفظ آیا ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں اُولٰٓپکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَۃَ بِالْھُدٰی (البقرہ آیت نمبر 16) فرمایا گیا “ ہدی للمتقین “ متقی۔ ہدایت یافتہ کو کہتے ہیں یہ اس طرح ہے جیسا کہ کہتے ہیں عزیز کو العزیز المکرم یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو عزت دے اور مکرم بنائے۔ اصل مقصود اس سے جو چیز اس میں پائی جاتی ہے یعنی عزت اس میں اس کا برقرار رہنا اور ہمیشگی طلب کی گئی ہے۔ جیسا کہ ” اھدنا الصراط المستقیم “ (الفاتحہ آیت نمبر 6) میں ہے۔ (کہ تو ہمیں ہدایت سے ہمیشہ وابستہ رکھ) اللہ تعالیٰ نے عنقریب متقی بننے والے کو متقین کا لباس زیب تن کرنے کی وجہ سے متقی فرما دیا۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : من قتل قتیلا فلہ سلبہ (بخاری ومسلم) اس ارشاد میں عنقریب قتل ہونے والے کو قتیل فرما دیا بوجہ الباس قتل کے۔ اور حضرت ابن عباس۔ کا ارشاد ہے اذا اراد احد کم الحج فلیعجل فانہ یمرض المریض عنقریب قتل ہونے والے کو اور بیمار ہونے والے کو قتیل اور مریض فرمایا۔ عنوان کا فرق : یہاں ھدی للضالین نہیں فرمایا۔ کیونکہ ان کے دو گروہ ہیں۔ نمبر 1: جن کا گمراہی پر قائم رہنا معلوم ہے۔ نمبر 2: جن کا انجام بالآخر ہدایت ہے۔ اور قرآن مجید اسی فریق ثانی کے لیے ہادی ہے۔ پس یہ عبارت کافی ہے۔ اگر اس سے زیادہ تفصیلی عبارت لائی جاتی تو یوں فرماتے، یہ ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو گمراہی کے بعد ہدایت کی طرف جانے والے ہیں، “ پس کلام کو اس طریق سے مختصر لائے، جس کا ہم نے تذکرہ کردیا۔ (عنقریب متقی بننے والے کو متقی کہہ دیا) نمبر 2: یہ بھی کہا گیا کہ ھدی للمتقین لائے حالانکہ یہ اس سورت کی ابتداء ہے۔ جو زہراوین میں سے ایک ہے۔ اور قرآن مجید کی چوٹی اور کوہان ہے۔ گویا ابتداء سورت اپنے اولیاء متقی بندوں کے ذکر سے فرمائی۔ المتقی۔ : یہ اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ اور عرب کا قول ہے وقاہ فاتقی۔ اس کا فا کلمہ وائو ہے اور لام کلمہ یا ہے۔ جب اس سے باب افتعال بنایا تو وائو کو تا کر کے تا میں ادغام کردیا۔ اتقٰی بن گیا۔ الوقایہ۔ پیش بندی۔ حفاظت کرنا۔ شریعت میں اس کا معنی کسی ایسے کام میں اپنے آپ کو مبتلا کرنے سے بچانا۔ جس کے کرنے یا چھوڑنے سے سزا کا مستحق ہو۔ تراکیب : ترکیب 1: ہدی کا لفظ محلاً مرفوع ہے کیونکہ یہ مبتداء محذوف کی خبر ہے۔ ترکیب 2: ذلک کی خبر ہے لاریب فیہ کے ساتھ مل کر ترکیب 3: فیہ کی ھاؔ ذوالحال اور ھدی حال ہے۔ ترکیب 4: بلاغت کے اعتبار سے زیادہ پختہ بات یہ ہے کہ الٓمّٓ بذات خودمکمل جملہ ہے یا حروف معجمہ کا مجموعہ ہے جو مستقل بنفسہٖ ہے۔ ذلک الکتاب یہ دوسرا جملہ ہے لا ریب فیہ تیسرا جملہ ہے۔ اور ھدی للمتقین چوتھا جملہ ہے۔ انوکھا انداز بلاغت : پھر اپنی ترتیب میں اس نے بلاغت کا انوکھا انداز پیدا کیا کہ حروف عطف کے بغیر ان کو اس شاندار ترتیب سے لایا گیا کہ ایک کی گردن گویا دوسرے سے ملی ہوئی ہے، دوسرا پہلے کے ساتھ معانقہ کرتے ہوئے مل رہا ہے اسی طرح تیسرا اور چوتھا۔ اس کی وضاحت اس طرح ہے اوّلا متنبہ کیا کہ یہ وہ کلام ہے جس سے چیلنج دیا گیا پھر اشارہ فرمایا کہ یہ انتہائی کمال والی قابل تعریف کتاب ہے تو اس سے چیلنج والی جانب کو پختہ کردیا۔ پھر نفی کی کہ شک کی کسی جانب بھی اس کے ساتھ ذرہ بھر بھی مشابہت نہیں پائی جاتی۔ پس یہ بات اس کے کمال کی شہادت ودستاویز بن گئی کیونکہ حق و یقین والا کمال سب سے بالاتر اور کامل ہے۔ جس طرح باطل و اشتباہ سے بڑھ کر کوئی نقص وعیب نہیں۔ ایک عالم کو کہا گیا کہ۔ تیری لذت کس بات میں ہے ؟ اس نے کہا ایسی دلیل میں جو وضاحت میں نزاکت کی چال چلے۔ اور ایسے اشتباہ میں جو رسوائی سے نڈھال کر دے۔ پھر خبردی کہ یہ متقین کے لیے ہدایت ہے۔ پھر اس کا یقین ہونا اس طرح پختہ کردیا کہ شک اس کی گرد کو بھی نہیں پاسکتا۔ اور وہ ایسا حق ہے کہ باطل اس کے سامنے اور پیچھے کسی طرف سے نہیں آسکتا۔ پھر اس گہری ترتیب اور عمدہ تنسیق کے ساتھ ساتھ چاروں میں سے کوئی ایک جملہ بھی ایک عظیم الشان نکتہ سے خالی نہیں۔ نکتہ عظیمہ : اول جملہ میں حذف اور مطلوب کی طرف لطیف انداز سے اشارہ ہے۔ جبکہ دوسرے جملہ کے معرفہ میں قابل دید عظمت ہے۔ اور تیسرے جملہ میں ریب کے لفظ کو ظرف پر مقدم کیا کیا ٹھاٹھ ہے (پیچھے ذکر ہوا) اور چوتھے جملہ میں حذف ہے۔ اور ھدًی مصدر کو اسم فاعل کے مقام پر لایا گیا۔ گویا ہادی بنفس نفیس ہدایت ہے۔ پھر اس کو نکرہ لائے۔ اس میں یہ بتلادیا کہ یہ ایسی ہدایت ہے جس کی حقیقت کو پہنچا نہیں جاسکتا۔ اور متقین کا تذکرہ مختصر انداز میں کرلیا جیسے پہلے گزرا۔ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ کی تفسیر : الذین۔ نحو : نمبر 1 : یہ محلًا مرفوع ہے۔ نمبر 2: صفت کی صورت میں محل نصب میں ہے یعنی ھُمُ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ ۔ وہی جو ایمان رکھتے ہیں یا میری مراد الذین یومنون وہ ایمان والے ہیں۔ نمبر 3: الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ مبتداء اور اس کی خبراولٰٓپکَ عَلٰی ھُدًی۔ نمبر 4: یہ مجرور ہے اس طرح کہ متقین کی صفت ہے۔ یہ صفت متقین کی صفت کو کھولنے اور واضح کرنے کے لئے لائی گئی ہے۔ جیسے کہتے ہیں۔ زید الفقیہ المحقق۔ کیونکہ یہ اس چیز پر مشتمل ہے جس پر نیکیوں کی جڑ ہے۔ اور وہ نماز اور صدقہ ہے یہ دونوں بنیادی عبادات مالیہ اور بدنیہ کی جزء ہیں۔ (الصلٰوۃ عماد الدین) نماز کو دین کا ستون قرار دیا۔ (اور دوسری روایت میں) کفر واسلام کے درمیان فاصل نماز کا چھوڑ دینا قرار دیا گیا۔ اور زکوٰۃ کو اسلام کا پل فرمایا۔ (الزکوۃ قنطرۃ الاسلام) گویا ان کا مقام و مرتبہ ایسا ہے کہ تمام عبادات ان کے تابع ہیں۔ اسی لیے تو کلام کو مختصر فرمایا اور طاعات کے تذکرہ میں فقط عنوان پر اکتفا کیا اور اسکے ساتھ ساتھ ان دونوں عبادتوں کی فضیلت کو کھول دیا۔ نمبر 5: یا یہ صفت ہے جو متقین کے ساتھ لائی گئی جو مزید فائدہ کے لیے لائی گئی ہے مثلًا زید الفقیہ المتکلم الطبیب۔ اس صورت میں متقین سے مراد وہ لوگ ہونگے جو برائیوں سے گریزاں ہیں۔ یُؤْمِنُوْنَ : (تصدیق کرتے ہیں) نحو : یہ امن مصدر سے باب افعال ہے۔ اور محاورہ ہے۔ امنت ” یعنی اس کی تصدیق کی اس کی حقیقت تکذیب و مخالفت سے امن میں ہونا ہے۔ باء سے یہ متعدی ہے۔ اس لیے کہ یہ اقرار واعتراف کے معنی کو اپنے اندر شامل کرنے والا ہے۔ بِالْغَیْبِ : (جوان سے پوشیدہ ہیں) ان چیزوں میں سے جن کی خبران کو نبی اکرم ﷺ نے دی۔ نمبر 1: مثلاً بعث ونشر اور حساب وغیرہ کے معاملات (جو کہ غائب کے مفہوم میں ہیں) پس مصدر بمعنی اسم فاعل (غائب) لائے۔ جیسا کہتے ہیں۔ غاب الشیء غیبا۔ یہ اس صورت میں ہے جب تم اس کو یؤمنون کا صلہ بنائو۔ نمبر 2: اور اگر تم اس کو حال قرار دو ۔ تو پھر یہ پوشیدگی اور خفاء کے معنی میں ہوگا۔ یعنی وہ ایمان لاتے ہیں۔ اس حال میں کہ جس چیز پر ایمان لانا ہے۔ وہ ان سے غائب ہے۔ (مثلًا رسول اللہ وبعث وحشر کو دیکھا نہیں مگر ایمان لاتے ہیں) حقیقی طور پر یہ عبارت اس طرح ہے۔ متلبسین بالغیب یعنی غیب سے تلبس حاصل کرنے والے ہیں۔ صحیح ایمان یہ ہے کہ زبان سے اقرار کرے اور دل سے تصدیق کرے۔ عمل (حقیقت) ایمان میں داخل نہیں (البتہ ایمان کی علامت وثمرہ ضرور ہے) اقامت کا مطلب : وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ : (یعنی اس کو ادا کرتے ہیں) نمبر 1: ادائیگی کو اقامت سے تعبیر کیا۔ حالانکہ قیام تو اس کا ایک رکن ہے۔ یہ اس طرح ہے جیسا کہ نماز کو قنوت سے تعبیر کیا۔ اور قنوت قیام ہی کو کہتے ہیں۔ رکوع اور سجود اور تسبیح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں نماز میں پائی جاتی ہیں۔ نمبر 2: یا اقامت صلوۃ سے مراد تعدیل ارکان ہے۔ یہ ” اقام العود “ سے ہے جب لکڑی کو سیدھا کردیں۔ نمبر 3: یا نماز پر مداومت اور محافظت مراد ہے۔ پھر یہ۔” قامت السوق “ سے بنا ہے۔ جب بازار پر رونق ہوجائے۔ کیونکہ جب کسی چیز کی حفاظت کی جاتی ہے تو پھر وہ چالو مال کی طرح بن جاتی ہے۔ جس کی طرف رغبتیں متوجہ ہوتی ہیں۔ اور جب کسی چیز کو ضائع کیا جائے تو وہ اس کھوٹی اور نکمی چیز کی طرح ہے جس کی طرف طبیعت کی رغبت نہیں ہوتی۔ معنی صلوٰۃ : اَلصَّلٰوۃَ ۔ نحو : الصلوٰۃ کا لفظ فعلۃ کے وزن پر صلّی سے بنا ہے جیسا کہ الزکوٰۃ کا لفظ زکی سے۔ اور وائو کیساتھ اس کی کتابت بطور تفخیم کے ہے۔ صلّی کا حقیقی معنی چوتڑوں کو حرکت دینا ہے۔ کیونکہ نمازی رکوع و سجود میں ان کو حرکت دیتا ہے۔ داعی (دعوت دینے والا) کو بھی مصل (بلانے والا) کہا جاتا ہے رکوع و سجدہ کرنے والے کے ساتھ خشوع میں مشابہت کی وجہ سے اس کو۔” مصل “ کہا جاتا ہے۔ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ : (جو ہم نے ان کو دے رکھا ہے) یہاں ما بمعنی الذی ہے۔ انفاق سے مراد : یُنْفِقُوْنَ : (وہ اس میں سے کچھ خرچ کرتے ہیں) صدقہ کرتے ہیں۔ من تبعیضیہ داخل کرکے ممنوع فضول خرچی سے محفوظ کردیا۔ مفعول کو اس کی اہمیت پر دلالت کرنے کیلئے مقدم کیا۔ نمبر 1: مراد یہاں زکوٰۃ ہے، کیونکہ یہ اس صدقہ سے ملی ہوئی ہے جو کہ زکوٰۃ کی ہمدم ہے۔ نمبر 2: یا۔ زکوٰۃ سے مراد زکاۃ اور اسی طرح کے خرچہ جات ہوں جو بھلائی کے راستہ میں کئے ہیں کیونکہ یہاں زکوٰۃ کا لفظ بلا کسی قید کے آیا ہے۔ اور انفق الشیء اور انفدہ یہ دونوں ایک ہی معنی رکھتے ہیں جیسا کہ نفق الشیء اور نفد۔ چیز کا خرچ ہونا ختم ہونا کے معنی میں آتے ہیں۔ قاعدہ : ہر وہ لفظ جس کا فاء کلمہ نون ہو اور عین کلمہ فاء ہو وہ نکلنے اور چلے جانے کے معنی میں آتا ہے۔ نکتہ : اس آیت سے بطور دلالت یہ بات ثابت ہوگئی۔ کہ اعمال ایمان کا حصہ نہیں وہ اس لیے کہ یہاں صلوٰۃ و زکوٰۃ کو ایمان پر عطف کر کے ذکر کیا گیا۔ اور عطف مغایرت کو چاہتا ہے۔
Top